Maktaba Wahhabi

181 - 411
کی دلیل میں یہ بتایا کہ اس میں رکھا ہی کیا ہے؟یہ کہ پہلے لوگوں کی حکایات ہیں اور بس۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ کوئی شخص کسی شاعر سے کہے کہ ’’مسدس حالی‘‘ ایک بے مثل کتاب ہے۔ وہ اس کے جواب میں کہے کہ ایسی مسدس تو میں بھی بنا سکتا ہوں، اس میں کوئی نیا خیال تو ہے نہیں، مسلمانوں کی ترقی و تنزلی کی ایک ادھوری سی تاریخ ہے اوربس۔ اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی قادرالکلامی کا اظہار شاعرانہ طرز سے کرتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح قرآن مجید میں منکرین کو پہلے مثل قرآن لانے کی دعوت دی گئی، پھر دس سورتوں کی دعوت دی گئی۔ پھر ایک سورت کی دی گئی تو وہ اسی کمی تعداد کو اپنے حق میں تعجیز سمجھے۔ جس طرح کسی شاعر کو کہا جائے کہ اُستاد غالب کے دیوان جیسا دیوان بناکر دکھا۔ نہ دکھائے تو کہاجائے اس کے ایک قصیدے جیسا قصیدہ بنالا۔ نہ لائے تو کہا جائے اچھا ایک شعر ہی اس جیسا بنا لا۔ اس قسم کے مطالبات میں اسلوب کلام کی مثلیت مراد ہوتی ہے دگر ہیچ۔ پس امام ابوبکر باقلانی اور امام فخرالدین رازی مرحومین کا قول بالکل صحیح ہے جو آپ نے نقل کیا ہے: ’’قرآن اس لیے معجزہ ہے کہ اس میں نظم و تالیف اور الفاظ کی نشست اس ڈھنگ پر واقع ہوئی ہے کہ اُن تمام اسالیب نظم سے جو بھی اس میں رائج تھے خارج اور اُن کے لیکچروں کے طرز سے بالکل مخالف، اس لیے اہل عرب کے لیے قرآن کا معارضہ کرنا ناممکن ہوگیا۔ ‘‘ (باقلانی) ’’قرآن اپنی فصاحت اور نادر اسلوب کی وجہ سے معجزہ ہے اور اس لیے کہ وہ تمام عیوب سے پاک ہے۔ (رازی)۔‘‘ (سلطان، ص:64،65) رہی یہ بحث کہ عرب کا مقابلہ میں مثل قرآن نہ لانا کس وجہ سے تھا؟ آیا ان
Flag Counter