Maktaba Wahhabi

234 - 411
اصل بات یہ ہے کہ امام موصوف کا مافی الضمیر یہ ہے کہ شعراء اور خطباء کا دستور ہے کہ اپنے سابق اساتذہ کے کلاموں کو سامنے رکھ کر ان کی طرح پر نظم و نثر لکھتے ہیں، مگر قرآن کا طرز بیان ایسا نہیں۔ ہمارے زمانے میں اس کی دو مثالیں ملتی ہیں۔ امرؤ القیس کا معلقہ بڑا مقبول قصیدہ ہے۔ اس کا مطلع یوں ہے: قفا نبک من ذکریٰ حبیب و منزل بسقط اللوی بین الدخول فحومل[1] اس کو سامنے رکھ کر نواب صدیق حسن خان مرحوم نے قصیدہ لکھا۔ جس کا پہلا شعر یہ ہے لسلمۃ دار بالدخول فحوملٖ عفی أیھا نسبح الجنوب وشمالٖ پھر اسی وزن پر سارا قصیدہ لکھا جو عربیت کے لحاظ سے بہت عمدہ ہے۔ ان کے بعد مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے اسی معلقہ کو سامنے رکھ کر ایک قصیدہ لکھا جس کا نام ’’اعجازی قصیدہ‘‘ رکھا۔ اس کا مطلع یوں ہے أیا أرض مدّ قد أتاک مدمر وأرداک ضلیل و أغراک موغر[2] (اعجاز احمدی) حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں قصیدے امرؤ القیس کے قصیدے کو سامنے رکھ کر اسی طرز پر اسی بحر میں لکھے گئے ہیں۔ امام باقلانی کہتے ہیں کہ شعراء اور خطباء سابقہ اساتذہ کے کلاموں کو زیر نظر
Flag Counter