Maktaba Wahhabi

236 - 411
کو چھپاکر مصنوعی شہادت پیش کریں۔ کیا یہ شان محققین کی ہے یا متعصبین کی؟ آہ ہوا تھا کبھی سر قلم قاصدوں کا یہ تیرے زمانے میں دستور نکلا نوٹ: ایک امر ناظرین کے ذہن نشین رکھنے کے لائق ہے۔ عرب کے کلام میںاستعارات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک قریب الفہم جیسے قمر یا سورج کو محبوب کے لئے استعارہ کیا جائے۔ جیسے محبوبہ کو متنبی کہتا ہے أمن ازدیارک في الدجی الرقباء إذ حیث کنت من الظلام ضیائ[1] ’’اے محبوبہ ! کوئی رقیب تجھے اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتا ۔ کیونکہ تو جہاں ہوگی وہاں سورج ہوگا۔‘‘ یہ استعارہ قریب الفہم اور مستحسن بھی ہے۔ اُردو میں بھی اس قسم کا استعارہ ملتا ہے۔ چنانچہ شاعر اپنے دوست کو سورج قرار دے کر لکھتا ہے وہ نہ آئیں شب وعدہ تو تعجب کیا ہے رات کو کس نے ہے خورشید درخشاں دیکھا نمکینیٔ کلام کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ مگر دوسری قسم کا استعارہ اس سے بہت دور ہے جس میں اس قسم سے بہت زیادہ غرابت (لطافت) پیدا ہوجاتی ہے، جیسے یہی متنبی کہتا ہے لم تلق ھذا الوجہ شمس نھارنا إلا بوجہ لیس فیہ حیائ[2]
Flag Counter