Maktaba Wahhabi

300 - 411
پیدا ہونے یا ان کی جمعیت کا ٹوٹنا بتانا ہو وہاں بولتے ہیں: تشقوا عصاھم۔ انھوں نے اپنا اتفاق یا اجتماع توڑ دیا۔ ورنہ محض عصا کے معنی کہیں جماعت کے نہیں آئے۔ ان سب لفظوں کے بعد لفظ {فَانْفَجَرَتْ} قابل غور ہے۔ یہ دولفظوں سے مرکب ہے۔ماضی ’’انفجرت‘‘ اور ’’ف‘‘ سے۔ ’’ف‘‘ پہلے سے ملاپ فرعی چاہتا ہے اور ’’انفجرت‘‘ حدوث فعل کا متقاضی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بارہ چشموں کاجاری ہونا کسی پہلے فعل کا نتیجہ تھا وہ فعل سوائے ’’اضرب‘‘ کے کوئی اور نہیں۔ مولوی احمدالدین صاحب کے قلم سے بتصرف قدرت ایسا فقرہ نکل گیا جس سے مفہوم ہوتا ہے کہ یہ فعل حادث ہے اور ’’اضرب‘‘ کی فرع ہے۔ وہ فقرہ یہ ہے کہ ’’تو اس سے بارہ چشمے جاری ہوگئے۔‘‘ یہ لطف پہلے اصحاب کے ترجموں میں نہیں۔ ان صاحب نے مزید کمال یہ کیا ہے کہ ’’اضرب‘‘ (صیغہ امر) کے معنی ’’ضرب لگا‘‘ کیے۔ ’’الحجر‘‘ کے معنی پہاڑ بتائے لیکن لفظ {بِعَصَاکَ} سارا کھا گئے۔ شاید بے ضرورت سمجھا ہوگا ہاں (بتائے ہوئے مناسب مواقع پر) بڑھا کر اس حذف کی کسر نکال دی۔ بہرحال ان صاحب نے یہ تو مانا کہ ’’اضرب‘‘ کے معنی مارنا ہے مگر ’’الحجر‘‘کے معنی پہاڑ ہیں اور ’’انفجرت‘‘ بے شک حدوث فعل کے لیے ہے یعنی حضرت موسیٰ کے عصا مارنے سے بارہ چشمے پہاڑ سے نکل آئے۔ (ص: 502) پس ایک حد تک ہما را مقصود ثابت ہوا۔ مولوی چکڑالوی نے ’’علم‘‘ کے معنی قبضہ کے جو کئے ہیں وہ مزید لطف دے رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ علم کے معنی قبضہ کے کسی زبان میں نہ ملیں گے۔ دوم یہ کہ ہماری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ ان صاحب کو ایسا بے جا تصرف کرنے کی ضرورت کیا پیش آئی؟ نہ یہ فعل معجزانہ صور ت میں ہے نہ چکڑالوی صاحب معجزوں کے منکر۔ پھر یہ تکلیف اورارتکاب بعید چہ معنی دارد؟
Flag Counter