Maktaba Wahhabi

311 - 411
قرآن شریف میں کسی زمانہ کا نام نہیں بلکہ قوم بنی اسرائیل کا واقعہ بیان ہوا۔ اس واقعے میں سے جتنا کچھ بائبل سے ثابت ہوتا ہے وہ تو ہم پھر بتائیں گے مگر آپ کے اس فقرے سے: ’’صحف مطہرہ میں اس کا ذکر نہیں۔‘‘ (ص:217، 222) وغیرہ سے ہم متاثر نہیں ہوسکتے ،کیونکہ مسلمانوں کے اعتقاد میں وہ کتب جن کو آپ صحف مطہرہ کہتے ہیں ایک ناتمام تاریخی مجموعہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں، سو جس طرح مورخین کا طریق ہے کہ جو واقعہ ان کو پسند ہو یا ان کے حسب مذاق ہو اسے نقل کرلیتے ہیں اور جو ان کے مذاق کا نہ ہو یا اس کا ثبوت ان کے نزدیک نہ ہو وہ نہیں کرتے، اسی طرح ان کتابوں کے لکھنے والوں نے کیا۔ لیکن اس سے اس واقعہ کا عدم لازم نہیں آتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض واقعات ایک انجیل میں مذکور ہیں دوسری میں نہیں۔ متی محصول لینے والے کی مسیح سے ملاقات، پہاڑی کا وعظ وغیرہ ایک انجیل میں ہیں دوسری میں نہیں۔ چونکہ مسلمانوں کے اعتقاد میں موجودہ بائبل کو تاریخی حیثیت سے زیادہ وقعت نہیں، اس لیے کسی الہامی کتاب کی صحت اس کی موافقت پر مبنی نہیں ہوسکتی۔ اگر آپ فرمائیں کہ قرآن مجید میں تورات کی تصدیق آئی ہے پھر کیوں نہ بائبل پر مدار رکھا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں جس تورات کی تصدیق آئی ہے وہ چند احکام ہیں جن کو بائبل موجودہ کے ایک صفحہ سے کم پر لکھ کر کہا گیا ہے: ’’یہی باتیں خداوند نے پہاڑ پر آگ کے اور بدلی کے اور بے نہایت تاریکی کے درمیان سے تمھاری ساری جماعت کو بلند آواز سے کہیں اور اس سے زیادہ کچھ نہ فرمایا اور اس نے ان کو پتھر کی دو لوحوں پر لکھا اور انھیں میرے سپرد کیا۔‘‘ (استثناء 5:22) یہ عبارت بالکل قرآن کے موافق ہے۔ غو رسے سنیے: { وَ کَتَبْنَا لَہٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ مَّوْعِظَۃً وَّ تَفْصِیْلًا
Flag Counter