Maktaba Wahhabi

88 - 411
کس نیاموخت علم تیر از من کہ مرا عاقبت نشانہ نہ کرد[1] اصلی بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات بجز ورقہ بن نوفل کے کسی عیسائی اہل علم سے ثابت نہیں۔ورقہ ایک عیسائی اہل علم تھا جو ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا قریبی رشتہ دار تھا۔ ابتدائِ وحی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت دیکھ کر زوجہ محترمہ ورقہ کو اہل علم جان کر محبوب خاوند کو اس کے پاس لے گئیں، حال بتایا۔ ورقہ نے سب کچھ سن کر حضور کو خلعتِ نبوت پر مبارکباد دی۔ جس کے الفاظ یہ ہیں: (( انطلقت بہ خدیجۃ إلی ورقۃ بن نوفل ابن عم خدیجۃ، فقالت لہ: یا ابن عم! اسمع من ابن أخیک۔ فقال لہ ورقۃ: ابن أخي ماذا تری؟ فأخبرہﷺ خبر ما رأی، فقال ورقۃ: ھذا الناموس الذي أنزل اللّٰه علی موسیٰ، یا لیتني فیھا جذعا، یا لیتني أکون حیا إذ یخرجک قومک۔ فقال رسول اللّٰه ﷺ: أو مخرجي ھم؟ قال: نعم، لم یأت رجل قط بمثل ما جئت بہ إلا عودي، وإن یدرکني یومک أنصرک نصراً مؤزراً، ثم لم ینشب ورقۃ أن توفي ))[2] (بخاری و مسلم) (یعنی ) خدیجہ آپ کو ورقہ کے پاس لے گئیں، کہا: اے بھائی اپنے بھتیجے کا حال سن۔ ورقہ نے آنحضرت کو کہا میرے بھائی کے بیٹے تم نے کیادیکھا ہے؟ آنحضرت نے جو دیکھا تھا اُس کو بتایا، ورقہ نے سب حال سن کر کہا یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ نبی پر خدا نے بھیجا تھا، کاش کہ اُس وقت میں جوان ہوتا، کاش میں اُس وقت زندہ ہوتا جب تیری قوم تجھ کو نکال
Flag Counter