اور جب آپ کے گھر میں آپ کا محاصرہ کر لیا گیا تو آپ نے اس موقع پر یہ شعر کہا: یُبیَّتُ اہل الحصن و الحصن مغلق ویاتی الجبال الموت شرافہا العُلا [1] ’’قلعہ والے سو رہے ہوتے ہیں اور قلعہ بند ہوتا ہے، اور موت پہاڑ کی بلند و بالا چوٹیوں پر آپہنچتی ہے۔‘‘ نیز آپ سے یہ شعر بھی مروی ہے: غنیُّ النفس یغنی النفس حتی یکفہا و إن عضہا حتی یضر بہا الفقر ’’نفس کی بے نیازی نفس کو بے نیاز کر دیتی ہے، یہاں تک کہ اس کو بچا لیتی ہے، اگرچہ حالات سخت ہو جائیں، یہاں تک کہ فقر و محتاجی اسے نقصان پہنچائے۔‘‘ وما عسرۃ فاصبر لہا إن لقیتہا بکائنۃ إلاسیتبعہا یسر ’’جو مشکلات بھی پیش آئیں صبر کرو اس کے بعد آسانی ہے۔‘‘ ہم شعر کے آخری بیت کو دیکھتے ہیں کہ وہ قرآنی معانی پر مشتمل ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (6) (نشرح: ۶) ’’یقینا سختی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ ایسے مسلم خلیفہ کے لیے یہ کوئی انوکھی اور نئی چیز نہیں جس کی نشوونما اور تربیت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زیرعاطفت ہوئی ہو آپ شریعت اسلامیہ سے متعارض ہجو پر مشتمل اشعار پر سزا دیتے، اور اچھے اشعار پر تعریف کرتے، اور اس کو سننا پسند فرماتے اور یہ سب اسلامی مفاہیم کے ضمن میں داخل ہے۔[2] تیسرے خلیفہ راشد نے اگرچہ شعر کا اہتمام نہ کیا اور شعراء کو اپنے قریب نہ کیا لیکن فسادیوں کے ہاتھوں آپ کی شہادت نے سیاسی اشعار کی ترقی کا دروازہ کھول دیا، اور بعد کے اسلامی ادوار میں مؤثر صحافتی فن قرار پایا۔ آپ کی شہادت کی مناسبت سے بہت سے شعراء صحابہ نے اشعار کہے۔[3] ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں اس کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیں گے۔ |
Book Name | سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ شخصیت وکارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ، خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ، پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 535 |
Introduction |