Maktaba Wahhabi

183 - 534
رہے چنانچہ ’’جرف‘‘ اور ’’قناۃ‘‘[1]کے مابین پڑی ہوئی زمین کو زبیر بن العوام رضی اللہ عنہما کو عطا کیا اور مجاعہ بن مرارہ حنفی کو ’’یمامہ‘‘ کا ایک گاؤں ’’خضرمہ‘‘ عطا کیا۔[2] اور زبرقان بن بدر کو جاگیر دینے کا ارادہ کیا لیکن عمر رضی اللہ عنہ کے اعتراض کی وجہ سے رک گئے۔ اسی طرح عیینہ بن حصن فزاری اور اقرع بن حابس تمیمی کو ایک بنجر زمین اس کی اصلاح کی خاطر دینا چاہی، لیکن عمر رضی اللہ عنہ کی اس رائے کو اختیار کرتے ہوئے رک گئے کہ اب دونوں کے تالیف قلب کی ضرورت نہ رہی، فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسلام کمزور تھا تو تالیف قلب کی خاطر تم دونوں کو نوازتے تھے اور اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کر دیا ہے، جاؤ خود محنت کرو۔ یہاں یہ بات واضح ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ زمینوں کی اصلاح کی خاطر جاگیر عطا کرنے کے مخالف نہ تھے بلکہ تالیف قلب کی خاطر مخصوص افراد کو جاگیر عطا کرنے کے مخالف تھے۔ خود عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں زمینوں کی اصلاح کی خاطر نبوی سیاست پر عمل پیرا ہوتے ہوئے جاگیر عطا کرنے میں بڑی وسعت سے کام لیا اور یہ فرمان نامہ جاری کیا: ’’جو مردہ غیر آباد زمین کو آباد کرے وہ اس کی ہے۔‘‘[3] کچھ ضعیف روایات وارد ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے جاگیر کی زمینوں کی ملکیت ان حضرات سے واپس لے لی جو اس کی اصلاح نہ کر سکے۔[4] اور ضعیف روایت سے اس کے لیے تین سال کی مدت کی تحدید ظاہر ہوتی ہے یعنی جو حضرات جاگیر ملنے کے تین سال کے اندر زمین کو کام میں نہیں لا سکتے تھے ان کی ملکیت سلب کر لی جاتی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے خوات بن جبیر رضی اللہ عنہ کو غیر آباد زمین جاگیر میں عطا کی۔ زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کو عقیق کی پوری زمین عطا کر دی۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ینبع کی زمین دی اور اس میں کافی پانی نکل آیا تو علی رضی اللہ عنہ نے اس کو فقراء کے لیے وقف کر دیا۔[5] جب عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تو جاگیر عطا کرنے میں توسع سے کام لیا، خاص کر ان مفتوحہ علاقوں میں جہاں مالکان اپنی زمینیں چھوڑ کر فرار ہو گئے اور یہ زمینیں لاوارث ہو گئیں اور ان کی آباد کاری اور استثمار حکومت کی ذمہ داری قرار پائی لہٰذا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کے بنجر پڑ جانے اور غیر مزروعہ رہ جانے کے خوف سے لوگوں میں بطور جاگیر تقسیم کر دی۔[6] امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ارض سواد [7] میں سے بھی جاگیر دی، لیکن اس میں کوئی اشکال نہیں کیوں کہ بہت سی لاوارث زمینیں ارض سواد میں بھی تھیں بہر حال لاوارث زمینوں کو بطور جاگیر دینے کی وجہ سے آمدنی میں کافی اضافہ ہوا چنانچہ لاوارث زمینوں کی آمدنی دور فاروقی میں نو ہزار درہم تھی اور دور عثمانی میں یہ آمدنی بڑھ کر پچاس ملین درہم کو پہنچ گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاوارث زمینوں
Flag Counter