Maktaba Wahhabi

195 - 534
اس کا علم رکھتے تھے۔آپ کو وہ فقہ و بصیرت حاصل تھی جو عام لوگوں کو حاصل نہ تھی، آپ نے اقرباء کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور بر و احسان کا مشاہدہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو بحرین سے حاصل شدہ مال میں سے اتنا دیا تھا جتنا کسی اور کو نہیں دیا تھا۔[1] اسی طرح علی رضی اللہ عنہ جو آپ کے چچا زاد اور داماد تھے عہدے دیے تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ اور تمام مسلمانوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عظیم قدوہ و بہترین نمونہ ہیں۔[2] علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں: ’’عثمان رضی اللہ عنہ اچھے اخلاص کے حامل، بڑے با حیاء اور بے حد فیاض تھے۔ اللہ واسطے اپنے اہل و عیال اور اقارب کو ان کے تالیف قلب کے لیے دنیا کے فانی مال و متاع میں ترجیح دیتے تاکہ انہیں آخرت کو دنیا پر ترجیح دینے کی رغبت دلائیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کو عطا کرتے اور کچھ لوگوں کو ان کے ایمان و ہدایت کے پیش نظر نظر انداز کر دیتے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی اسی خصلت کی وجہ سے کچھ لوگوں نے تشدد اختیار کیا جیسا کہ بعض خوارج نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تشدد اختیار کیا تھا۔‘‘ [3] چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جعرانہ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک شخص بول پڑا: عدل و انصاف سے کام لیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شقیت ان لم اعدل‘‘[4] عثمان رضی اللہ عنہ مجلس شوریٰ کے سامنے اہل بیت اور قرابت داروں کے ساتھ بر و احسان پر استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میرے پیش رو میرے دونوں ساتھیوں (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ) نے اللہ سے ثواب کی خاطر اپنے اور اپنے اقرباء پر ظلم ڈھایا ہے حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اقرباء کو عطا کرتے تھے اور میرے خاندان کے لوگ تنگ دست ہیں، اس لیے میں نے اپنا ہاتھ کشادہ کر رکھا ہے اگر تم اسے غلط سمجھتے ہو تو پھر اسے واپس لے لو۔[5] علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان حضرات کی تردید فرمائی ہے جو عثمان رضی اللہ عنہ پر اتہام باندھتے ہیں کہ وہ بیت المال سے ڈھیر سا مال اپنے اہل و اقارب کو دیتے تھے، قریش کے چار افراد جن کے نکاح میں اپنی بیٹیوں کو دے رکھا تھا، چار لاکھ دینار دیے اور مروان کو دس لاکھ دینار دیے ۔ علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا ثبوت فراہم کرو۔بلاشبہ آپ اپنے اقرباء کو دیتے تھے اور دیگر لوگوں کو بھی دیتے تھے۔ تمام مسلمانوں کے ساتھ احسان کرتے تھے، لیکن یہ مقدار محتاج ثبوت ہے۔ یہ واضح جھوٹ ہے۔ نہ عثمان رضی اللہ عنہ اور نہ دیگر خلفائے راشدین نے کسی کو اس قدر مال دیا ہے۔[6] 
Flag Counter