Maktaba Wahhabi

264 - 534
کے موقف پر قائم تھے۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو گیا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے جہاد کا اعلان کیا، خلافت اسلامیہ کی راجدھانی مدینہ منورہ میں رضاکار مجاہدین کے استقبال کی تیاری مکمل کر لی گئی اور مجاہدین کی بھرتی اور پھر انہیں جنگی ساز و سامان سے لیس کر کے مصر کی طرف روانگی شروع کر دی گئی تاکہ وہ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کی قیادت میں افریقہ پر چڑھائی کر سکیں، اور نمایاں طور سے اس حملہ کا اہتمام ظاہر ہوا۔ اکابرین صحابہ رضی اللہ عنہم ، آل بیت کے نوجوانوں، اور مہاجرین و انصار کی اولاد نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس معرکہ میں حسن و حسین، ابن عباس، ابن جعفر وغیرہم رضی اللہ عنہم شریک ہوئے۔ صرف قبیلہ مہرہ سے چھ سو افراد، قبیلہ غنث سے سات سو اور قبیلہ میدعان سے سات سو مجاہدین نے شرکت کی۔ جب تیاری مکمل ہو گئی تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے مجاہدین کو خطاب فرمایا، جہاد کی رغبت دلائی اور فرمایا: تمہارے اوپر میں نے حارث بن حکم کو امیر مقرر کیا ہے اور جب تم سب عبداللہ بن سعد کے پاس پہنچ جاؤ تو تم سب عبداللہ بن سعد کی امارت میں کام کرنا، وہی تمہارے امیر ہوں گے۔ اب میں تمھیں اللہ کے حوالہ کرتا ہوں۔ روایت ہے کہ اس معرکہ کے لیے عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار اونٹ فراہم کیے، اور نادار مسلمان مجاہدین کو ان پر سوار کیا۔ جب یہ اسلامی لشکر مصر پہنچا تو عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کے لشکر میں جا ملا، اور عبداللہ بن سعد کی قیادت میں بیس ہزار کا یہ لشکر فسطاط سے روانہ ہوا اور مصر و لیبیا کی حدود کو پار کرتے ہوئے برقہ پہنچا، وہاں عقبہ بن نافع فہری اپنے لشکر کے ساتھ آکر ان کے ساتھ مل گئے۔ اسلامی لشکر کو برقہ میں کسی طرح کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا، کیوں کہ یہ ان شرائط پر قائم رہے جس پر انہوں نے مسلمانوں سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے دور میں مصالحت کی تھی یہاں تک کہ وہاں خراج وصول کرنے والے کو جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ وہ خود مناسب وقت میں مصر پہنچا دیا کرتے تھے۔ برقہ کے معاہدہ پر قائم رہنے کے اس پس منظر میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا گیا کہ میں اپنے اس مقام پر ہوں اور مجھ پر انطابلس (برقہ) کے لوگوں کے علاوہ مصر کے کسی قبطی کا کوئی عہد و پیمان نہیں ہے۔ میرے ذمہ ان کا عہد و پیمان ہے اس کو پورا کیا جائے گا۔ اسی طرح عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے تھے: اگر حجاز میں میری جائداد نہ ہوتی تو میں برقہ میں سکونت اختیار کر لیتا کیوں کہ اس سے بڑھ کر کوئی محفوظ اور پر سکون جگہ نہیں پاتا ہوں۔[1] اس طرح یہ بابرکت لشکر اسلام افریقہ کی طرف عقبہ بن نافع کے انضمام کے بعد روانہ ہوا۔ اس لشکر کے کمانڈر اِن چیف عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ برابر اطلاعی دستوں اور خبر رسانی کرنے والوں کو مختلف سمتوں میں روانہ کرتے رہے تاکہ راستوں کا انکشاف اور حفاظت ہو اور دشمن کی نقل و حرکت پر نگاہ رہے، دشمن کی کمین گاہوں اور اچانک حملوں سے حفاظت ہو سکے، ان اطلاعی دستوں کا فائدہ یہ ہوا کہ رومیوں کی بہت سی جنگی کشتیاں جو لیبیا کے
Flag Counter