Maktaba Wahhabi

265 - 534
ساحل پر طرابلس کی بندرگاہ میں ٹھہری تھیں مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں اور اس میں لدا ہوا سازو سامان مسلمانوں کو بطور غنیمت حاصل ہوا۔ سو سے زائد افراد قید کیے گئے، افریقہ کی فتح کی راہ میں یہ پہلا مال غنیمت تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔[1] عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے افریقہ کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور ہر سمت اطلاعی دستے اور جاسوس روانہ کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کا لشکر امن و امان کے ساتھ سبیطلہ پہنچ گیا، اور وہاں اسلامی لشکر عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اور حاکم افریقہ جرجیر کا لشکر ایک دوسرے کے مقابلہ میں آگئے۔ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ اور جرجیر کے درمیان اتصال جاری رہا، خط و کتابت ہوتی رہی، جرجیر پر اسلام کی دعوت پیش کی گئی کہ اللہ کے حکم کو مانتے ہوئے اسلام میں داخل ہو جائے یا اسلام کی سیادت کو تسلیم کرتے ہوئے جزیہ ادا کرے اور اپنے دین پر قائم رہے، لیکن وہ اپنے کبر و غرور میں مبتلا رہا، ایک نہ مانی اس صورت حال میں مسلمانوں کو اس پر حملہ کرنا پڑا، دونوں کے درمیان جنگ شروع ہو گئی اور کئی دن تک گھمسان کی جنگ چلتی رہی، یہاں تک کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مدینہ سے مدد پہنچی اور انہی کے ہاتھوں جرجیر متکبر کا خاتمہ ہوا۔[2] جب ساحل پر موجود رومیوں نے جرجیر اور سبیطلہ کے لوگوں کا انجام دیکھا تو ان کے دل بیٹھ گئے، اور وہ اکٹھا ہونے اور ایک دوسرے سے عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے جنگ کے بارے میں خط و کتابت کرنے لگے، لیکن سب خوفزدہ ہو گئے اور آخرکار ان لوگوں نے عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے مصالحتکی پیش کش اور تین سو قنطار سونا یا بعض روایات کے مطابق سو قنطار سونا سالانہ جزیہ دینے کا وعدہ کیا اور مسلمانوں کو واپس جانے کے لیے کہا۔ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے اس پیش کش کو قبول کر لیا اور مال لے لیا۔ صلح کی شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ صلح سے قبل مسلمانوں کے ہاتھ جو کچھ آیا ہے وہ مسلمانوں کا ہے، اور صلح کے بعد جو کچھ لیا ہے وہ واپس کر دیا جائے گا۔ اس صلح کے بعد آپ مصر واپس ہو گئے، اس طرح آپ افریقہ میں ایک سال تین ماہ یا ایک سال ایک ماہ رہے۔[3] جب عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ طرابلس پہنچے تو وہاں کشتیاں تیار ملیں، ان پر لشکر کا ساز و سامان لاد دیا اور امن و سلامتی کے ساتھ مصر کا رخ کیا، اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو خمس وغیرہ مال روانہ فرمایا۔ راجح بات یہ ہے کہ جو کشتیاں آپ کو طرابلس میں تیار ملیں وہ کشتیاں مسلمانوں نے سوریہ اور اسکندریہ میں بطور غنیمت حاصل کی تھیں، کیوں کہ ’’اِرشیبالد‘‘ بیان کرتا ہے کہ اسکندریہ اور سوریہ میں کار خانوں پر صحیح و سالم حالت میں مسلمانوں کے قبضہ کی وجہ سے جو جنگی کشتیاں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں، وہ یا تو تیار شکل میں تھیں یا ان کا تیار کرنا ان کے لیے سہل تھا۔[4]
Flag Counter