Maktaba Wahhabi

370 - 534
وہاں اقامت کرنے کے لیے آپ کو مجبور کیا گیا تھا، اور نہ خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنی رائے سے باز آنے کا حکم دیا، کیوں کہ اس رائے کی معقول توجیہ ہو سکتی ہے، لیکن مسلمانوں کے لیے اس کا قبول کرنا لازم نہیں۔[1] ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے متعلق صحیح ترین بات وہ ہے جو بخاری نے اپنی صحیح میں زید بن وہب سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ربذہ سے میرا گزر ہوا، میں نے وہاں ابوذر رضی اللہ عنہ کو پایا، میں نے ان سے دریافت کیا: آپ اس مقام پر کیوں اقامت پذیر ہیں؟ فرمایا: میں شام میں تھا میرے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اس آیت سے متعلق اختلاف رونما ہوا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللّٰهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (34) (التوبہ: ۳۴) ’’اے ایمان والو! اکثر احبار و رہبان لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں، اور اللہ کی راہ سے روک دیتے ہیں، اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں درد ناک عذاب کی خبر پہنچا دیجیے۔‘‘ معاویہ نے کہا: یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے، میں نے کہا: ہمارے اور ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارے اور ان کے درمیان کچھ باتیں ہوئیں اور انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے اس کی شکایت کی۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے بذریعہ خط مجھے مدینہ آنے کا حکم دیا، لہٰذا میں مدینہ آگیا، میں مدینہ پہنچا تو لوگوں نے مجھے اس طرح گھیر لیا جیسے انہوں نے اس سے قبل مجھے نہیں دیکھا تھا، میں نے یہ صورتحال عثمان رضی اللہ عنہ سے بیان کی، تو انہوں نے فرمایا: اگر تم چاہو تو مدینہ سے کسی قریبی علاقہ میں اقامت پذیر ہو جائو۔ لہٰذا میں نے اس مقام کو اختیار کیا۔ اگر مجھ پر حبشی کو بھی امیر مقرر کر دیا جائے تو میں اس کو سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔[2] اس اثر سے چند اہم ترین امور کی طرف اشارہ ملتا ہے: ٭ زید بن وہب نے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے سوال کیا تاکہ اس پروپیگنڈہ کی تحقیق کر لیں جو معاندین عثمان رضی اللہ عنہ پھیلا رہے تھے کہ آیا انہیں عثمان رضی اللہ عنہ نے جلا وطن کیا ہے یا انہوں نے خود اس مقام کو اختیار کیا ہے؟ اس روایت میں آپ کے کلام کے سیاق و سباق سے معلوم ہوا کہ وہ مدینہ سے ربذہ کے لیے اس وقت نکلے جب لوگوں نے آپ کو گھیر لیا، اور شام سے واپسی کے اسباب پوچھنے لگے۔ اس روایت میں کہیں یہ نہیں ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں ربذہ جانے کا حکم فرمایا تھا، بلکہ انہوں نے خود اس کو اختیار کیا تھا۔ اور اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے عبداللہ بن صامت سے بیان کیا ہے: میں
Flag Counter