Maktaba Wahhabi

375 - 534
٭…ابوذر رضی اللہ عنہ سے کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ ان کی رائے غلط ہے، کیوں کہ جو اس کی استطاعت رکھتا ہو اس کے لیے قابل تعریف عمل ہے اور نہ عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ حکم دیا کہ وہ اپنی رائے سے رجوع کر لیں آپ نے ان سے صرف یہ مطالبہ کیا کہ جو چیزیں از قبیل مباحات ہیں اس سلسلہ میں لوگوں پر نکیر نہ کریں۔ اور جس نے بھی یہ روایت کیا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو مطلق فتویٰ دینے سے روک دیا تھا اس کی روایت درجہ صحت کو نہیں پہنچتی۔[1] اور امام بخاری کے نزدیک جو بات صحیح ہے وہ یہ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم تلوار میری اس گردن پر رکھ دو، اور مجھے معلوم ہو کہ میں گردن کٹنے سے قبل وہ بات کہہ سکوں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میں کہہ دوں گا۔[2] صحیح بخاری میں یہ روایت نہیں ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو فتویٰ دینے سے منع فرمادیا تھا، کیوں کہ صحابی کو بغیر موضوع کی تحدید کے فتویٰ دینے سے روکنا کوئی آسان امر نہیں ہے۔[3] ٭…اگر عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں مطلقاً فتویٰ دینے سے منع کیا ہوتا تو ان کے لیے ایسی جگہ کا انتخاب فرماتے جہاں وہ لوگوں سے نہ مل سکتے، یا مدینہ میں قید کر دیتے یا مدینہ میں داخلہ بند کر دیتے، لیکن ان کو ایسے مقام پر اقامت پذیر ہونے کی اجازت دی جہاں سے لوگوں کا گزر اکثر ہوتا رہتا تھا، کیوں ربذہ عراقی حجاج کے راستہ میں لوگوں کے اترنے کا ایک مقام تھا نیز ابوذر رضی اللہ عنہ برابر مدینہ آتے جاتے رہتے تھے اور مسجد نبوی میں نماز ادا فرماتے تھے، عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ کہا تھا کہ آپ مدینہ سے الگ کسی قریبی مقام پر رہیں، ربذہ مدینہ سے دُور نہیں اس کی چراگاہ مدینہ سے قریب واقع ہے جہاں زکوٰۃ کے اونٹ چرا کرتے تھے، اور بیان کیا گیا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں زکوٰۃ کے اونٹوں کا ایک ریوڑ اور دو غلام عطا کیے، اور روزینہ جاری کیا، اور ربذہ مکہ کے راستہ میں بہترین منزل تھی۔[4] امام طبری نے ان روایات کو بیان کرنے کے بعد جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے خود اپنی پسند سے مدینہ سے علیحدگی اختیار کی تھی، فرماتے ہیں: دوسرے لوگوں نے اس علیحدگی کے اسباب کے طور پر بہت سی چیزیں اور قبیح باتیں ذکر کی ہیں جن کا ذکر کرنا بھی مجھے پسند نہیں۔[5] تاریخی حقیقت یہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ سے جلا وطن نہیں کیا تھا، بلکہ خود ان کے طلب کرنے پر اجازت فرمائی تھی، لیکن معاندین نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ آپ نے انہیں مدینہ سے جلا وطن کر دیا، اسی لیے جب غالب قطان نے حسن بصری رحمہ اللہ سے پوچھا: کیا عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ سے نکال دیا تھا؟
Flag Counter