Maktaba Wahhabi

376 - 534
تو حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: معاذ اللہ (اللہ کی پناہ)۔ [1] وہ تمام روایات جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ سے ربذہ کی طرف جلا وطن کر دیا تھا، ضعیف ہیں، علت قادحہ سے خالی نہیں، اور ساتھ ہی ساتھ ان کے متن میں بھی نکارت ہے، صحیح اور حسن روایات کے مخالف ہیں، جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے خود ربذہ میں اقامت پذیر ہونے کے لیے اجازت طلب کی تھی، اور ان کی اس طلب پر عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں اجازت دے دی تھی[2] بلکہ عثمان رضی اللہ عنہ نے خود ان کو شام سے بلایا تھا تاکہ وہ مدینہ میں آپ کے ساتھ رہیں، چنانچہ جب وہ شام سے مدینہ پہنچے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: ہم نے آپ کو شام سے اس لیے بلایا ہے کہ آپ مدینہ میں ہمارے ساتھ رہیں۔[3]نیز ان سے فرمایا: آپ ہمارے پاس رہیں آپ کو روزینہ ملتا رہے گا۔[4] غور کریں کہ کیا جلا وطن کرنے والا یہ بات کہے گا ؟ اور پھر جلا وطنی پر صراحت صرف ایک روایت میں وارد ہے جسے ابن سعد نے روایت کیا ہے، لیکن اس کی سند میں بریدہ بن سفیان اسلمی ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ ضعیف ہے، اور اس کے اندر رفض کی بدعت پائی جاتی ہے، تو کیا رافضی کی وہ روایت جو صحیح و حسن روایات کے مخالف ہو، قبول کی جائے گی؟[5] رافضیوں نے اس واقعہ کا استغلال بری طرح کیا، اور یہ پروپیگنڈہ کیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو ربذہ کی طرف جلا وطن کر دیا، اور آپ کے خلاف خروج کرنے والوں نے اس کی وجہ سے آپ پر تنقید کی، اور آپ کے عیوب ہی کو شمار کیا، اور آپ کے خلاف خروج کے لیے اس کو وجہ جواز قرار دیا۔[6] ابن مطہر حلی رافضی (م ۷۲۶ھ) نے اس واقعہ کو عثمان رضی اللہ عنہ کے عیوب میں شمار کیا اور اس پر مزید یہ اتہام لگایا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی بری طرح پٹائی کی۔[7] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کی پرزور تردید کی ہے۔[8] اس امت کے سلف صالحین کو اس حقیقت کا اچھی طرح پتہ تھا اسی لیے جب حسن بصری رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ کیا عثمان رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ سے جلا وطن کر دیا تھا تو فرمایا: معاذ اللہ (اللہ کی پناہ)۔ [9] اور ابن
Flag Counter