Maktaba Wahhabi

397 - 534
کچھ کیا وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کو اس بات کا شدید احساس اور خوف تھا کہ مسلمان اگر بلادعجم میں پھیلے، جو مال و متاع سے پر ہے تو ان کے دلوں پر دنیا کا قبضہ ہو جائے گا اور یہ ان کی آخرت کو برباد کر دے گا۔[1] پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا، تو مشرق و مغرب میں فتوحات کا اضافہ ہوا، مال غنیمت وغیرہ کی بیت المال پر بارش ہونے لگی، اور لوگوں کے ہاتھ مال و دولت سے بھر گئے۔[2] یہاں اشارہ کی چنداں ضرورت نہیں کہ اس مال و دولت اور فتوحات کی آمدنی کا معاشرہ پر کیا اثر مرتب ہو گا، خوشحالی ہو گی لوگ دنیا میں مشغول ہوں گے اس کا فتنہ انہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ خاص کر دیہات کے اجڈ بدو، فتوحات میں اسلام لانے والے، خوشحال اقوام کی اولاد جنھوں نے دنیا کی رنگینیوں میں ایک طویل عرصہ گزارا تھا اور اس کو مقصد حیات تصور کرتے تھے، ایمان نے ابھی ان کے نفوس کو صیقل نہیں کیا تھا، اور تقویٰ صحیح معنی میں ان کے دلوں میں جاگزیں نہیں ہوا تھا، اور ابھی ان کی مکمل تربیت بھی نہ ہو سکی تھی۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس صورت حال کا اندازہ لگا لیا تھا، اسی لیے رعایا کے نام اپنے پیغام میں تغیر و تبدل کے ان خطرات سے آپ نے لوگوں کو آگاہ کیا تھا: ’’جب تین چیزیں تمہارے اندر جمع ہو جائیں تو پھر امت بدعت کی طرف بڑھے گی: (۱) نعمتوں کی فراوانی (۲) جنگی لونڈیوں کی بلوغت (۳) دیہاتیوں اور عجم کا قرآن پڑھنا۔‘‘[3] نعمتوں کی فراوانی سے متعلق حسن بصری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ معاشرہ کی حالت، مال و دولت کی فراوانی اور لوگوں کے کبر و غرور اور عدم شکر کے عینی شاہد ہیں: میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کا دور پایا، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ جس میں ان میں مال تقسیم نہ ہو، اعلان کیا جاتا مسلمانو! آؤ اپنے عطیات لے جاؤ، پھر اعلان ہوتا آؤ گھی اور شہد لے جاؤ، عطیات جاری تھے، روزینہ فراوانی سے ملتا تھا، دشمنی و عداوت نہ تھی آپس میں تعلقات استوار تھے، خیر کثیر تھا… اور دوسری بات یہ کہ تلواریں مسلمانوں کے سلسلہ میں میان بند تھیں، پھر لوگوں نے اپنوں کے خلاف تلواریں کھینچ لیں جو آج تک کھنچی ہوئی ہیں، اور اللہ کی قسم میرا خیال ہے قیامت تک اب کھنچی رہیں گی۔[4]
Flag Counter