Maktaba Wahhabi

398 - 534
اور رہی بات جنگی لونڈیوں سے مسلمانوں کی اولاد کی بلوغت کی، تو اس کا اندازہ اس صورت حال سے ہوتا ہے جو ان کی فراخی و خوش حالی کو پہنچ چکی تھی۔ مدینہ میں جب دنیا کے مال و متاع کی بہتات ہوئی تو سب سے پہلی برائی جو ظاہر ہوئی وہ کبوتر بازی اور غلیل بازی تھی۔عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے آٹھویں سال بنو لیث کے ایک شخص کو اس برائی کو مٹانے کے لیے عامل مقرر فرمایا، جو لوگوں کو اس سے روکتا، اور ان کی غلیلیں توڑ دیتا تھا۔ [1] اور نبیذ نوشی سے نشہ پھیلنا شروع ہوا، عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو مقرر فرمایا جو عصا لے کر گھومتا تھا، اور لوگوں کو اس سے روکتا تھا، اور جب یہ زیادہ ہوا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے سامنے یہ قضیہ رکھا، پھر انہوں نے بالاجماع یہ طے کیا کہ جو نبیذ پیے اس کو کوڑے لگائے جائیں۔ لہٰذا جو پکڑے جاتے ان کو کوڑے لگائے جاتے پھر عثمان رضی اللہ عنہ جو بھی برائی میں پکڑا جائے یا ہتھیار نکالے اس کو مدینہ سے جلاوطن کر دینے لگے، اس کی وجہ سے ان کے والدین چیخ اٹھے۔[2] عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا: لوگوں کی کوتاہیوں اور غلطیوں کی رپورٹ مجھ کو پہنچتی ہے، میں فتنہ کا دروازہ کھولنے والا نہیں ہوں میں نے اپنے نفس کو نکیل دے رکھی ہے اور اس کو لگام سے کس دیا ہے، میں اس کو اسی نکیل کے ساتھ چلاتا ہوں اور اسی لگام سے روکتا ہوں میری طرف سے تمہارے لیے رسی کا ایک سرا ہے لہٰذا جو میرے پیچھے چلے گا اس کو میں معروف پر چلاؤں گا اور جو میرے پیچھے نہ چلے وہ اس معروف سے ہٹ جائے گا اور خود اپنا ذمہ دار ہو گا۔ خبردار! ہر نفس کے لیے قیامت کے دن ایک ہنکانے والا اور ایک گواہ ہو گا، ہنکانے والا اس کو اللہ کے حکم پر لے کر چلے گا اور شاہد اس کے اوپر اس کے عمل کی گواہی دے گا، تو جو اللہ کا طلبگار ہے وہ خوش ہو جائے اور جو دنیا کا طلبگار ہے وہ ناکام و نامراد ہے۔[3] اس طرح خلیفہ راشد اور تقویٰ و طہارت کے پیکر عثمان رضی اللہ عنہ نے جب اپنی ذمہ داری اور فرائض کو ادا کیا، اور آپ کی یہ کارروائیاں اغنیاء کی اولادوں کے خلاف تعزیری ٹھہریں جو اخلاقی بگاڑ و فساد کا شکار ہو رہے تھے تو یہ منحرفین ان شور و غل کرنے والے گھٹیا لوگوں کے ساتھ معترضین میں شامل ہو گئے۔ رہا دیہاتیوں اور عجم کے قرآن پڑھنے کا معاملہ، تو نمایاں شکل میں اسلامی معاشرہ میں لوگوں کا ایک طبقہ وجود میں آیا، جنھوں نے ثواب کی رغبت سے قرآن کو نہیں سیکھا تھا بلکہ خلیفہ کی طرف سے جو مال ترغیب و تشجیع کے طور پر قرآن پڑھنے والوں پر خرچ ہوتا تھا اس کو سمیٹنے کے لیے قرآن پڑھا۔[4] ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تغیر اور تبدیلی خلافت اسلامی کے دیگر اطراف میں بھی شروع ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ دارالخلافہ مدینہ طیبہ میں پہنچنے لگی، جس کی وجہ سے عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس سے متنبہ کرنے کے لیے
Flag Counter