Maktaba Wahhabi

402 - 534
اور کافر و منافق بھی تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے سلسلہ میں جو اس آیت کریمہ میں فرمایا ہے وہ اسی کے مصداق تھے: الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَى رَسُولِهِ وَاللّٰهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (97) (التوبۃ: ۹۷) ’’دیہاتی لوگ کفر اور نفاق میں بہت ہی سخت ہیں اور ان کو ایسا ہونا ہی چاہیے کہ ان کو ان احکام کا علم نہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں اور اللہ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ اور اس وجہ سے کہ ان کے دل انتہائی سخت، ان کی طبیعت انتہائی کٹھور، اور ان کی باتیں انتہائی بھونڈی ہوتی ہیں، یہ اپنی ان صفات کی وجہ سے اس قابل رہے کہ یہ اللہ کے نازل کردہ احکام و شریعت اور جہاد کی حدود کو نہ جان سکیں۔[1] لہٰذا یہ فتنوں میں سب سے زیادہ سبقت کرنے والے رہے جس کے مختلف اسباب رہے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: ٭ دینی علم و فہم کی کمی۔ ٭ تھوڑا بہت قرآن سیکھ کر علم کا غرور آجانا اور یہ سمجھ بیٹھنا کہ عالم ہو گئے۔ ٭ علماء کا عدم احترام، ان سے کسب علم اور ان کی اقتداء سے اعراض۔ ٭ قبائلی عصبیت کا دلوں میں جاگزیں ہو جانا۔ ٭ سازشی لوگوں کا انہیں دھوکا دینا اور ان کی سادگی و جہالت کا بے جا استعمال کرنا۔ ٭ ان کی طبیعتوں کی سختی، مدنیت اور لوگوں کے ساتھ اختلاط سے نفرت، اور دوسروں کے ساتھ بدظنی۔ ہر زمان و مکان میں دیہاتیوں کی یہی فطرت رہی ہے۔ ٭ دین میں بے جا تشدد اور غلو کہ اسی لیے اکثر خوارج اسی صفت سے تعلق رکھتے تھے۔[2] ان دیہاتیوں میں سے ایسے لوگ نکلے جو قراء کے نام سے معروف ہوئے حالاں کہ قراء کا مفہوم اس کے منطوق سے مختلف تھا، منطوق کے اعتبار سے اس کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنھیں قراء ت قرآن میں تخصص حاصل ہو، لیکن اس کا مفہوم بدل گیا، ان میں سے کچھ خوارج کے طریقہ پر مخصوص انداز میں قرآن کو سمجھتے تھے، اور کچھ عابد و زاہد تھے اور جو پڑھتے تھے اس کو صحیح طریقہ سے سمجھتے نہیں تھے، لہٰذا معاشرہ کی اس صورت حال کے ساتھ وہ مربوط نہ ہو سکے،[3] اور یہی جاہل قاری و حافظ فتنہ میں سبقت کرتے رہے۔ اور اس کے بھی کچھ اسباب تھے:
Flag Counter