Maktaba Wahhabi

492 - 534
عثمان رضی اللہ عنہ نے پوری وضاحت اصرار اور سختی سے کہا اور آپ خلیفہ تھے آپ کی اطاعت واجب تھی: میں ہر اس شخص پر لازم قرار دیتا ہوں جو یہ سمجھتا ہے کہ میری سمع وا طاعت اس پر واجب ہے کہ وہ اپنا ہاتھ اور اسلحہ روک لے۔[1] آپ نے ایسا اس لیے کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے شہادت کی خبر پر آپ کو مکمل یقین تھا کہ وہ شہید کیے جائیں گے، اس لیے آپ نے چاہا کہ ان کے سبب خون نہ بہایا جائے اور مسلمانوں کے درمیان فتنہ کا سبب نہ بنیں۔[2] مغیرہ بن اخنس بن شریق حج میں تھے۔ حج کے بعد حجاج کی ایک جماعت کے ساتھ جلدی مدینہ روانہ ہوئے اور عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس شہادت سے پہلے پہنچ گئے اور گھر میں پہنچ کر دفاع میں ڈٹ گئے اور عثمان رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: امیر المومنین! اگر ہم نے آپ کو چھوڑ دیا تو کل کے دن اللہ کے حضور کیا عذر پیش کریں گے حالاں کہ ہم اس کی طاقت رکھتے ہیں کہ مرتے دم تک ان کو آپ تک نہ پہنچنے دیں؟ باغی آگے بڑھے اور دروازہ اور سائبان کو آگ لگا دی، گھر میں جو لوگ تھے بھڑک اٹھے اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ نماز میں تھے آپ نے انہیں روکا، لیکن مغیرہ بن اخنس، حسن بن علی، محمد بن طلحہ، سعید بن العاص، مروان بن الحکم اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم نے ڈٹ کر قتال کیا، عثمان رضی اللہ عنہ بار بار انہیں قتال سے رک جانے کا حکم دیتے اور پھر نماز میں لگ جاتے آپ نے سورۂ طہ شروع کی: طه (1) مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَى (2) إِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَى (3) (طہ:۱۔۳) ’’طہ، ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لیے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑ جائے بلکہ اس کی نصیحت کے لیے جو اللہ سے ڈرتا ہے۔‘‘ آپ سریع القراء ت تھے، اس ہنگامہ سے آپ پریشانی میں مبتلا نہیں ہوئے، اپنی قراء ت میں لگے رہے، نہ غلطی کی نہ اٹکے یہاں تک کہ باغیوں کے پہنچنے سے قبل سورت کے آخر تک تلاوت مکمل کی پھر بیٹھے اور یہ آیت تلاوت کی: قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (137) (آل عمران: ۱۳۷) ’’تم سے پہلے بھی ایسے واقعات گزر چکے ہیں سو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ (آسمانی تعلیم کے) جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔‘‘
Flag Counter