Maktaba Wahhabi

493 - 534
اس دن قریش کے چار نوجوان زخمی ہوئے: حسن بن علی، عبداللہ بن زبیر، محمد بن حاطب، مروان بن الحکم رضی اللہ عنہم ۔[1]اور مغیرہ بن اخنس، نیار بن عبداللہ اسلمی[2] اور زیاد فہری شہید ہوئے۔عثمان رضی اللہ عنہ دفاع کرنے والوں کو عدم قتال پر مطمئن کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انہیں گھر سے باہر چلے جانے کا حکم دے دیا اور پھر آپ کے اور باغیوں کے درمیان راستہ صاف ہو گیا، گھر میں صرف عثمان رضی اللہ عنہ اور آپ کے اہل خانہ بچے اور دفاع کرنے والا کوئی نہ رہا اور گھر کا دروازہ کھول دیا گیا۔[3] گھر سے جب دفاع کرنے والے نکل گئے تو آپ نے قرآن کھولا اور تلاوت شروع کر دی۔ اس وقت آپ روزہ سے تھے، اسی دوران باغیوں میں سے ایک شخص جس کا نام روایات میں مذکور نہیں، آپ کے پاس پہنچا جب آپ نے اس کو دیکھا تو فرمایا: میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب ہے۔[4] یہ سن کر وہ شخص واپس چلا گیا، اس کا واپس ہونا تھا کہ ایک دوسرا شخص داخل ہوا، وہ بنی سدوس کا فرد تھا اس کو الموت الاسود (کالی موت) کہا جاتا تھا اس نے تلوار سے مارنے سے قبل آپ کا گلا دبوچ لیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اللہ کی قسم! ان کے گلے سے ملائم کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی۔ میں نے ان کا گلا دبایا تو میں نے ان کی جان کو جسم میں ادھر سے ادھر جن کی طرح بھاگتے ہوئے پایا،[5] پھر اس نے آپ کو تلوار سے مارا آپ نے اپنے ہاتھ سے تلوار کو روکا آپ کا ہاتھ کٹ گیا۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم یہ پہلی ہتھیلی ہے جس نے مفصلات کو ضبط تحریر کیا۔[6] آپ کا تبین وحی میں سے تھے، آپ پہلے شخص ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی املاء سے مصحف لکھا، آپ کو اس حال میں شہید کیا گیا کہ مصحف آپ کے سامنے تھا، ہاتھ کٹتے ہی مصحف پر خون کے چھینٹے پڑ گئے اور خون کے چھینٹے اس آیت پر پڑے: فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللّٰهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (137) (البقرۃ: ۱۳۷) ایک روایت میں ہے کہ جس نے سب سے پہلے آپ پروار کیا اس کا نام رومان یمانی تھا اس نے لاٹھی سے آپ کو مارا اور جب باغی آپ کو شہید کرنے کے لیے پہنچے تو آپ نے یہ اشعار پڑھے: اری الموت لا یبقی عزیزا و لم یدع لعاد ملاذا فی البلاد و مرتقی
Flag Counter