Maktaba Wahhabi

500 - 534
رنگ کا تھا، کالے پن کی وجہ سے اس کا لقب جبلہ تھا نیز اس کو ’’الموت الاسود‘‘ (کالی موت) کا لقب بھی دیا گیا ہے اور محب الدین خطیب کی تحقیق یہ ہے کہ عبداللہ بن سبا قاتل تھا چنانچہ کہتے ہیں کہ یہ ثابت ہے کہ عبداللہ بن سبا فسطاط سے مدینہ آتے وقت مصری باغیوں کے ساتھ تھا۔ ہر کردار میں جو اس نے ادا کیا اس کی یہی کوشش رہی کہ وہ پردہ کے پیچھے رہے، عین ممکن ہے ’’الموت الاسود‘‘ اسی کا اسم مستعار ہو اور اس کے ذریعہ سے اپنی طرف اشارہ مقصود ہو تاکہ اسلام کو منہدم کرنے کے لیے اپنی دسیسہ کاریوں کو بروئے کار لا سکے۔[1] اس تحقیق پر یہ شہادت ہے کہ عبداللہ بن سبا کالا تھا، علی رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ آپ نے اس کو خبث اور کالے پن سے متصف کیا چنانچہ آپ نے اس سے متعلق فرمایا: ’’الخبیث الاسود‘‘ (خبیث کالا) [2] عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سلسلہ میں محمد بن ابی بکر کو متہم کرنا باطل ہے کیوں کہ اس سلسلہ میں روایات ضعیف ہیں اور متن شاذ ہیں بلکہ صحیح روایات کے خلاف ہیں اس لیے کہ صحیح روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ کا قاتل ایک مصری شخص ہے۔[3] اور ڈاکٹر یحییٰ الیحیٰی نے کئی اسباب ذکر کیے ہیں جن سے عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے محمد بن ابی بکر کی براء ت راجح قرار پاتی ہے،من جملہ ان اسباب کے یہ ہیں: ا۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص کے مطالبہ کے لیے بصرہ تشریف لے گئیں اگر آپ کا بھائی بھی انہی قاتلین میں سے ہوتا تو کبھی بعد میں اس کے قتل پر غمگین نہ ہوتیں۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے متعلق تفصیل کے وقت آئے گی۔ ب۔ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر علی رضی اللہ عنہ کی لعنت اور ان سے براء ت کا اظہار اس بات کا متقاضی ہے کہ آپ انہیں اپنے سے قریب نہ کرتے اور نہ ان کو کوئی عہدہ عطا کرتے لیکن آپ نے محمد بن ابی بکر کو مصر کا گورنر مقرر کیا اگر وہ قاتلین میں سے ہوتے تو آپ ایسا نہ کرتے۔ ج۔ ابن عساکر نے اپنی سند سے محمد بن طلحہ بن مصرف سے روایت کی ہے کہ میں نے ام المومنین صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا کے غلام کنانہ سے سنا کہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر موجود تھا، اس وقت میری عمر چودہ سال تھی۔ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا نے ان سے دریافت کیا کیا محمد بن ابیبکر کا ہاتھ عثمان رضی اللہ عنہ کے خون سے آلودہ ہوا، انہوں نے کہا: اللہ کی پناہ وہ داخل تو ہوئے لیکن عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: بھتیجے تو میرا ساتھی (قاتل) نہیں۔ وہ باہر آگئے۔ اور ان کا ہاتھ آپ کے خون سے آلودہ نہ ہوا۔[4] اس کی شاہد وہ روایت ہے جسے خلیفہ بن خیاط اور طبری نے ایسی سند سے حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت کیا
Flag Counter