Maktaba Wahhabi

359 - 411
بھی تلاش کی جاتی ہے۔مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی حکم دیں تو اس کی دلیل تلاش نہیں کی جائے گی۔ اس دعوے پر یہ آیت قرآنی پیش کی تھی: { فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} [النسائ: 65] اس آیت میں فیصلہ نبویہ کو بدل وجان مان لینے کاحکم ہے۔ یعنی آپ کے فیصلے کی اپیل کسی اورجگہ نہیں ہوسکتی بلکہ مان لینا داخل ایمان ہے مگر یہ سب کچھ حضور علیہ السلام کو بوصف رسالت حاصل ہے بحیثیت ذات نہیں۔ اس کے ساتھ ہم نے اصل مطاع بالغیر کی ایک مثال بھی دی تھی کہ بادشاہ اصل مطاع ہے مگر پر یوی کونسل کے جج بھی ماتحت حکم بادشاہ اصل مطاع یعنی منتہائے سوال ہیں۔ چونکہ ایسا ماننے سے حضور علیہ السلام کے احکام حدیثیہ کا ماننا بھی ثابت ہوتا ہے اور فریق ثانی حدیث نبوی کی حجیت سے منکر ہے، اس لیے انھوں نے اس اصول کے ماننے سے انکار کردیا، آخر مباحثہ مکمل ہوکر رسالہ کی صورت میں بنام ’’اتباع الرسول‘‘ شائع ہوگیا۔ چونکہ مولوی احمددین مذکور کے دماغ میں اس بحث میں کمزوری دکھانے کا خیال سمایا ہواتھا اس لئے آپ نے بے موقع اس رکوع میں اس بحث کو ذکر کردیا۔ آیت {فَلَا وَ رَبِّکَ} الخ کی تفسیر کے ماتحت یہ بحث کرتے تو ایک باموقع بات ہوتی لیکن ایساکرنے سے ان کی دماغی کیفیت ثابت نہ ہوتی۔ بہرحال آپ نے اس موقع پر جو فرمایا ہے آئندہ درج ہوگا۔ امرتسری احمدی تفسیر کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں جس میں مؤلف نے سورہ بقرہ کے دسویں رکوع میں اصلاً مطاع کی بحث کو داخل کردیا۔ ہم نے تمہید میں لکھا تھا کہ اس بحث کا یہ موقع نہ تھا، مگر مؤلف نے اپنا دماغی توازن بتانے کو ایسا کیا۔ یہ ہم نے اس لیے لکھا ہے کہ مؤلف موصوف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطاع بامر اللہ کہنے والوں
Flag Counter