Maktaba Wahhabi

155 - 442
اور فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّ ہُمْ یُخْلَقُوْنَ، اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ، ﴾ (النحل: ۲۰۔۲۱) ’’اور جن لوگوں کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کوئی چیز بھی تو تخلیق نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود تخلیق شدہ ہوتے ہیں، (وہ) مردہ ہیں زندہ نہیں ۔ انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘ اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیات کریمہ ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ کے سوا جس کسی کو بھی پکارا جائے وہ پکار کو قبول نہیں کر سکتا اور نہ ہی پکارنے والے کو کوئی نفع پہنچا سکتا ہے، یہ اور بات ہے کہ غیر اللہ کو پکارنے کی صورت میں کبھی امتحان وآزمائش کے طور پر مطلوب حاصل ہو جاتا ہے۔ ہم یہاں یہ عرض کریں گے کہ یہ مطلوب دعا کرنے والے کی دعا کے وقت حاصل ہوا ہے جو غیر اللہ سے کی گئی تھی، اس شخص کی دعا کی وجہ سے نہیں جسے اللہ کے سوا پکارا جا رہا ہے اور کسی چیز کے ساتھ کسی چیز کے حصول اور کسی چیز کے پاس کسی چیز کے حصول میں فرق واضح ہے اور ہمیں علم الیقین کی حد تک یہ بات ان بہت سی آیات کریمہ کی روشنی میں معلوم ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے کہ غیر اللہ کو پکارنا نفع کے حاصل کرنے یا نقصان کے دور کرنے کا سبب نہیں ہو سکتا، لیکن امتحان آزمائش کے طور پر کبھی کبھی مقصود حاصل ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کبھی اسباب معصیت کے ساتھ بھی انسان کی آزمائش کرتا ہے تاکہ معلوم کرے کہ اس کا سچا بندہ کون ہے اور اپنی خواہشات نفس کا پجاری کون؟ یہود کے ان اصحاب سبت کو دیکھیے جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے دن میں مچھلیوں کے شکار کو حرام قرار دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اس طرح آزمائش میں مبتلا کر دیا کہ ہفتے کے دن مچھلیاں بہت کثرت کے ساتھ آتی تھیں اور باقی دنوں میں چھپ جاتی تھیں۔ جب یہ صورت حال خاصے طویل عرصے تک رہی تو وہ کہنے لگے کہ آخر ہم اپنے آپ کو ان مچھلیوں سے کیوں محروم رکھیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں حیلے بہانے اور تدبیریں سوچنی شروع کر دیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم جال جمعے کے دن ڈال دیا کریں گے اور مچھلیوں کو اتوار کے روز پکڑ لیا کریں گے۔ انہوں نے ایسا کیا تو یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ ایک کام کو حلال قرار دینے کا ایک حیلہ تھا۔ اس لیے (مکافات عمل کے طور پر) اللہ تعالیٰ نے انہیں انسانوں کی شکل وصورت سے بندروں کی صورت میں تبدیل کر کے ذلیل ورسواکردیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَسْئَلْہُمْ عَنِ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ حَاضِرَۃَ الْبَحْرِ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْہِمْ حِیْتَانُہُمْ یَوْمَ سَبْتِہِمْ شُرَّعًا وَّ یَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ لَا تَاْتِیْہِمْ کَذٰلِکَ نَبْلُوْہُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ، ﴾ (الاعراف: ۱۶۳) ’’اور (اے نبی!) ان (یہود مدینہ) سے اس قصبے کا حال تو پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھا۔ جب یہ لوگ ہفتے کے دن کے بارے میں حد سے تجاوز کرنے لگے، ان کے ہفتے کے دن مچھلیاں ان کے سامنے پانی کے اوپراترا آتیں اور جب ہفتے کا دن نہ ہوتا تو نہ آتیں۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کو ان کی نافرمانیوں کے سبب آزمائش میں ڈالنے لگے۔‘‘
Flag Counter