Maktaba Wahhabi

355 - 442
صدقہ فطر کے مسائل سوال ۳۷۲: رمضان کے پہلے عشرے ہی میں صدقۃ فطر ادا کر دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :زکوٰۃ فطر کی اضافت فطر کی طرف ہے کیونکہ فطر ہی اس کا سبب ہے، اس لئے جب فطر رمضان ہی اس کفارے کا سبب ہے تو یہ اسی کے ساتھ مقید رہے گا، لہٰذا اس سے پہلے ادا نہیں کیا جا سکتا، اس کا افضل وقت عید کے دن نماز عید سے پہلے کا وقت ہے لیکن اسے عید سے ایک یا دو دن پہلے بھی ادا کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں لینے اور دینے والے دونوں کے لیے سہولت ہے۔ اس سے زیادہ ایام قبل بطور پیشگی زکوۃ فطر ادا کرنے کے بارے میں اہل علم کے اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں۔ گویا اس کے لیے دو وقت ہیں: (۱) وقت جواز اور وہ عید سے ایک یا دو دن پہلے کا وقت ہے۔ (۲) وقت فضیلت اور وہ عید کے دن نماز سے پہلے کا وقت ہے۔ نماز عید کے بعد تک اسے مؤخر کرنا حرام ہے، اس سے صدقۃ الفطر ادا نہ ہوگا کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث ہے: ((مَنْ اَدَّاہَا قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَہِیَ زَکَاۃٌ مَقْبُوْلَۃٌ وَمَنْ اَدَّاہَا بَعْدَ الصَّلَاۃِ فَہِیَ صَدَقَۃٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ)) (سنن ابی داود، الزکاۃ، باب زکاۃ الفطر، ح: ۱۶۰۹ وسنن ابن ماجہ، الزکاۃ، باب صدقۃ الفطر، ح: ۱۸۲۷۔) ’’جس نے اسے(صدقہ فطر)کو نماز سے پہلے ادا کر دیا تو یہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے اسے نماز کے بعد ادا کیا تو اس کا شمار صدقات میں سے ایک عام صدقہ میں ہوگا۔‘‘ اگر آدمی کو عید کے دن کا پتہ نہ چل سکے، اس لیے کہ وہ جنگل میں رہتا ہو یا اس کا علم اسے تاخیر سے ہوپائے یہ یا اس طرح کی دیگر صورتوں میں نماز عید کے بعد بھی صدقہ فطر ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس سے صدقہ فطر ادا ہو جائے گا۔ سوال ۳۷۳: کیا صدقے کی نیت سے زکوٰۃ فطر مقرر مقدار سے زیادہ دینا بھی جائز ہے؟ جواب :ہاں یہ جائز ہے کہ انسان فطرانہ زیادہ دے دے اور زیادہ کے بارے میں صدقے کی نیت کر لے جیسا کہ آج کل بعض لوگ ایسا کیا کرتے ہیں، مثلاً: اگر کسی کودس آدمیوں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا ہے، اس غرض سے وہ چاولوں کی ایک بوری خرید کر اپنے اور اپنے تمام اہل خانہ کی طرف سے صدقہ فطر کے طور پر دے دیتا ہے تو اس شخص کا یہ تعامل جائز ہے بشرطیکہ اسے یقین ہو کہ یہ بوری اس کے ذمے واجب صدقے کے مطابق ہے یا اس سے زیادہ ہے کیونکہ صدقے کا وزن اسی لیے واجب قرار دیا گیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ مقدار اس کے مطابق ہے۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہو کہ اس بوری میں یہ مقدار پوری ہے اور پھر ہم یہ بوری فقیر کو دے دیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ سوال ۳۷۴: بعض علماء کہتے ہیں اگر وہ اجناس موجود ہوں جن کا حدیث میں ذکر آیا ہے، تو چاول کو بطور صدقہ فطر ادا کرنا جائز نہیں، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ جواب :بعض علماء کہتے ہیں کہ جب تک یہ پانچ اجناس گندم، کھجور، جو، کشمکش اور پنیر موجود ہوں، تو دیگر اجناس سے صدقہ فطر ادا کرنا جائز نہیں لیکن یہ قول ان علماء کے قول کے بالکل خلاف ہے جو یہ کہتے ہیں کہ صدقہ فطر ان اجناس کے علاوہ دیگر اجناس سے حتیٰ کہ نقدی کی صورت میں بھی ادا کرنا جائز ہے، گویا اس مسئلہ میں دو قول ہیں۔ صحیح قول یہ ہے کہ صدقہ فطر ہر اس جنس سے ادا کرنا جائز
Flag Counter