Maktaba Wahhabi

378 - 442
پھر روزہ رکھنا افضل ہے کیونکہ اس میں درج ذیل تین فوائد ہیں: (۱) اس میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا ہے۔ (۲) اس میں سہولت ہے کیونکہ انسان جب دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر روزہ رکھے تو اس میں آسانی ہوتی ہے۔ (۳) اس سے انسان جلد بریٔ الذمہ ہو جاتا ہے اور اگر روزہ رکھنے میں دشواری ہو تو نہ رکھے کیونکہ اس حالت میں سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک شخص کو دیکھا کہ اس پر سایہ کیا گیا ہے اور لوگوں کا اس پر ہجوم ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ صحابہ نے بتایا کہ ایک روزہ دار ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ))( صحیح البخاری، الصوم باب قوم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لمن ظل علیہ واشتد الحر: ’’لیس من البر الصیام فی السفر‘‘ ح: ۱۹۴۶ وصحیح مسلم، الصیام، باب جواز الصوم والفطر فی شہر رمضان للمسافرین من غیر معصیۃ، ح: ۱۱۱۵۔) ’’سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔‘‘ اس عموم کو ایسے شخص پر محمول کیا جائے گا جسے روزہ رکھنا بہت گراں محسوس ہوتا ہو، اس لیے ہم کہتے ہیں کہ عصر حاضر میں سفر آسان ہے، جیسا کہ سائل نے کہا اور اکثر و بیشتر صورتوں میں روزہ گراں محسوس نہیں ہوتا، لہٰذا افضل یہ ہے کہ روزہ رکھ لیا جائے۔ مسافر مکہ پہنچنے پر روزہ چھوڑ دے تاکہ آسانی سے عمرہ کر سکے سوال ۴۰۵: مسافر جب روزے کی حالت میں مکہ میں پہنچ جائے تو کیا وہ روزہ توڑ دے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ عمرہ ادا کر سکے؟ جواب :نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتح کے سال مکہ میں بیس رمضان کو داخل ہوئے تھے اور اس وقت آپ نے روزہ نہیں رکھا ہوا تھا، مکہ میں آپ نماز بھی دو رکعت پڑھتے اور اہل مکہ سے فرماتے تھے: ((یَا اَہْلَ مَکَّۃَ اَتِمُّوا فَاِنَّا قَوْمٌ سَفْرٌ))( موطا امام مالک، الحج، ح: ۲۰۲، ۲۰۳ وکتاب السفر (۱۹)۔) ’’اے اہل! مکہ تم اپنی نماز پوری کر لو، ہم مسافر لوگ ہیں۔‘‘ صحیح بخاری سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے مہینے کے باقی ایام میں بھی مکے میں روزے نہیں رکھے کیونکہ آپ مسافر تھے۔ مکہ پہنچ کر عمرہ کرنے والے کا سفر ختم نہیں ہوتا اور اگر مکہ میں آتے وقت اس نے روزہ نہ رکھا ہو تو اس کے لیے یہ لازم نہیں کہ کھانے پینے سے رکا رہے۔ بعض لوگ سفر میں بھی روزے رکھتے رہتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ وقت میں روزے رکھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے، لہٰذا روزے کی حالت میں جب مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں، تو وہ بہت تھکے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کیا روزے کو جاری رکھوں اور عمرہ کو روزہ افطار کرنے کے بعد ادا کروں یا روزہ چھوڑ دوں اور مکہ پہنچنے کے فوراً بعد عمرہ ادا کر لوں؟ اس صورت میں ہم اس کے لیے کہیں گے کہ افضل یہ ہے کہ تم روزہ چھوڑ دو تاکہ مکہ مکرمہ میں پہنچنے کے فوراً بعد عمرہ ادا کر لو؟ مذکورہ صورتحال میں اس کے لیے أفضل یہ ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے تاکہ مکہ مکرمہ میں پہنچنے کے فوراً بعد ہشاش بشاش ہو کر عمرہ ادا کر سکے کیونکہ عمرے کی غرض سے آنے والے کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ مکہ مکرمہ میں پہنچنے کے فوراً بعد عمرہ ادا کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرے کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لاتے تو آپ فوراً عمرہ ادا فرماتے حتیٰ کہ اپنی سواری کو مسجد حرام کے پاس بٹھاتے اور عمرہ ادا کرنے کے لیے مسجد میں تشریف لے جاتے، لہٰذا اے عمرہ ادا کرنے والے! تمہارا روزہ چھوڑ دینا تاکہ دن کے وقت چاق و چوبند ہو کر عمرہ ادا کر سکو اس سے افضل ہے کہ دن
Flag Counter