Maktaba Wahhabi

291 - 442
(۱) حرکت واجب(۲) حرکت مسنون(۳) حرکت مکروہ(۴) حرکت حرام(۵) حرکت جائز (۶) حرکت واجبہ یہ ہے جس پر نماز کا کوئی فعل واجب موقوف ہومثلاً: یہ کہ انسان نماز ادا کرنا شروع کرے اورنمازمیں داخل ہوتے ہی اسے یاد آئے کہ اس کے رو مال پر نجاست لگی ہوئی ہے تو اس صورت میں اس کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے رومال کو نمازکی حالت میں اتار کر الگ کردے۔ یہ حرکت واجب ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے کہ آپ کے پاس جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا کہ آپ کے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوران نماز ہی اتار دیا اور نماز کو جاری رکھا، لہٰذا یہ حرکت حرکت واجب ہوئی اور اس کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ اس پر کسی واجب کو ادا کرنا یا ترک کرنا موقوف ہو۔ (۷) حرکت مسنونہ یہ ہے جس پر نماز کا کمال موقوف ہو، مثلاً: صف میں خلا آجانے کی صورت میں اس خلا کو پر کرنے کے لیے حالت نماز میں صف کے قریب آجائے مثلاً: انسان نماز ادا کر رہا ہو اور اس کے اور اس کے ساتھی کے درمیان خلا واقع ہوجائے اس خلا کو پر کرنے کی غرض سے اپنے ساتھی کے قریب ہونا حرکت مسنونہ ہوگی کیونکہ جماعت کی صورت میں خلا کو پر کرنا مسنون ہے۔ (۸) حرکت مکروہ وہ حرکت ہے جس کی نماز میں کوئی ضرورت نہ ہو اور نہ تکمیل نماز کے ساتھ ہی اس کا کوئی تعلق ہو۔ (۹) حرکت محرمہ وہ حرکت ہے جو بہت زیادہ اور مسلسل یا پیہم ہو مثلاً: یہ کہ انسان نماز کی حالت میں دوران قیام کوئی بے فائدہ حرکت شروع کر دے، اور نمازی رکوع کی حالت میں منتقل ہوجانے کے بعد بھی وہ وہی حرکت کرتا رہے جو حالت قیام میں کر رہا تھا اور پھر سجدہ اور جلسہ میں بھی اسی حرکت کو جاری رکھے حتیٰ کہ نماز کی صورت وہیئت ہی ختم ہو جائے اور معلوم دے کہ یہ شخص نماز کی حالت ہی میں نہیں ہے تو یہ حرکت حرام ہے، کیونکہ اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔ (۱۰) حرکت مباحہ وہ ہے، جو مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ ہو، مثلاً: یہ کہ ضرورت پیش آنے پر کھجلی کر لے یا اس کا رومال اس کی آنکھوں پر گر جائے اور وہ اسے آنکھوں سے اوپر اٹھا لے تو یہ حرکت حرکت مباحہ کہلاتی ہے۔ یا یہ کہ کوئی انسان نمازی سے اجازت طلب کرے اور وہ ہاتھ اٹھا کر اسے اجازت دے دے تو یہ حرکت بھی جائز ہے۔ نماز میں سترکا بیان سوال ۲۶۵: سترے کے بارے میں کیا حکم ہے اور اس کی مقدار کتنی ہے؟ جواب :نماز میں سترہ سنت موکدہ ہے، البتہ امام کے سترہ پر اکتفا کی وجہ سے مقتدی کے لیے سترہ اختیار کرنا مسنون نہیں ہے۔ اس کی مقدار کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ((مِثْلَ مُؤْخِرَۃِ الرَّحْلِ)) (صحیح مسلم، الصلاۃ، باب سترۃ المصلی… ح:۵۹۹۔) ’’کجاوے کے پچھلے حصے کی طرح ہو۔‘‘ لیکن یہ اس کی زیادہ سے زیادہ مقدار ہے جب کہ اس سے کم تر مقدار بھی جائز ہے کیونکہ دوسری حدیث میں آیا ہے: ((اِذَا صَلَّی اَحَدُکُمْ فَلْیَسْتَتِرْ لِصَلَاتِہِ وَلَوْ بِسَہْمٍ)) (مسند احمد، ح: ۳/۴۰۴ وصحیح ابن خزیمۃ، سترۃ المصلی، ح: ۸۱۱۔) ’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سترہ اختیار کرے، خواہ وہ تیر کے بقدر ہو۔‘‘
Flag Counter