Maktaba Wahhabi

174 - 442
کا ضیاع بھی ہے کہ اس طرح کے سفروں پر بہت سا مال خرچ کرنا پڑتا پڑتاہے۔ اگر علاج یا ایسی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اجنبی ممالک جانے کی ضرورت درپیش ہو جس کا اپنے ملک میں حاصل کرنا ممکن نہ ہو اس صورت میں بھی جیسا کہ ہم نے ذکر کیا اس کے پاس علم اور دین ہو تو سفرکرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جہاں تک کفار کے ممالک میں سیر وسیاحت کے لیے جانے کا تعلق ہے تو اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ سیر وسیاحت کے لیے اسلامی ممالک کی طرف جانا چاہیے جہاں کے باشندے شعائر اسلامیہ کی پابندی کرتے ہوں۔ ہمارے اسلامی ملکوں میں … بحمد للہ… اب تفریحی مقامات بن چکے ہیں، چھٹیوں کے دور ان ان تفریحی مقامات کی طرف جاکر چھٹی گذاری جاسکتی ہے۔ سوال ۹۵: فضیلۃ الشیخ! ایک شخص کفار کے ساتھ کام کرتاہے، آپ اسے کیا نصیحت فرمائیں گے؟ جواب :کفار کے ساتھ کام کرنے والے اس بھائی کو ہم یہ نصیحت کریں گے کہ وہ کوئی ایسا کام تلاش کر لے جہاں کام کرنے والوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں اور غیر مسلموں میں سے کوئی نہ ہو۔ اگر ممکن ہو تو ایسا ہی کرنا چاہیے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو بطورمجبوری کوئی حرج نہیں کیونکہ اس کو اپنے کام سے سروکار ہے اور کافرکو اپنے کام سے مطلب ہے بشرطیکہ مسلمان کے دل میں ان کی محبت، مودت اور دوستی کا داعیہ نہ پایا جاتا ہو۔اور ایسا شخص سلام کہنے، جواب دینے اور دیگر امور میں شریعت کی پابندی کرے۔ اسی طرح ان کے جنازوں میں شرکت نہ کرے، ان کی عیدوں میں شامل نہ ہو اور نہ انہیں ان کے فنگشنوں میں مبارک باد دے اور اسی کے ساتھ ساتھ مقدور بھر انہیں اسلام کی دعوت دینے کی بھی کوشش کرتا رہے۔ سوال ۹۶: کفار کے پاس جو کچھ موجود ہے، کسی ممنوع چیز کا ارتکاب کیے بغیر ہم اس سے کس طرح استفادہ کر سکتے ہیں؟ کیا اس میں ’’مَصَالِحْ مَرْسَلہ‘‘ کا بھی دخل ہے؟ جواب :اللہ تعالیٰ کے دشمن اور ہمارے دشمن، یعنی کفار جو کچھ کرتے ہیں، اس کی حسب ذیل تین اقسام ہیں: (۱) عبادات (۲)عادات (۳) صنعت وحرفت کے اعمال جہاں تک عبادات کا تعلق ہے، تو یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لیے ان کی عبادات کی مشابہت اختیار کرنا جائز نہیں کیونکہ جو شخص عبادات میں ان کی مشابہت اختیار کرے گا، وہ ایک ایسے عظیم خطرے میں مبتلادوچاررہے گا جو اسے دائرۂ اسلام سے نکال کر کفر تک پہنچا سکتا ہے۔ اسی طرح عادات، مثلاً: لباس وغیرہ میں ان کی مشابہت بھی حرام ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ)) (سنن ابی داود، اللباس، باب ماجاء فی لبس الشہرۃ، ح:۴۰۳۱۔) ’’جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ بھی انہی میں سے ہے۔‘‘ جہاں تک ایسی صنعت وحرفت کا تعلق ہے، جس میں مصالح عامہ ہوں، تو اسے ان سے سیکھنے اور استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا شمار ان سے مشابہت اختیار کرنے کی قبیل سے نہیں بلکہ اس کا یہ تصرف اعمال نافعہ میں مشارکت کرنے کے باب سے ہے کہ اس طرح کے کاموں میں شریک ہونے والا شخص ان کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے والا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جہاں تک سائل کی اس بات کا تعلق ہے کہ ’’کیا اس میں مصالح مرسلہ کا بھی دخل ہے؟‘‘ تو ہم عرض کریں گے کہ مصالح مرسلہ کو مستقل دلیل قرار نہیں دینا چاہیے کیونکہ مصالح مرسلہ کے بارے میں اگر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ ’’مصالح‘‘ ہیں اور شریعت ان کی صحت و قبولیت کی شاہد ہے تو پھر ان کا تعلق شریعت ہی سے سمجھا جائے گا اور اگر شریعت ان کے باطل ہونے کی گواہی دے تو پھر یہ مصالح
Flag Counter