Maktaba Wahhabi

176 - 442
جواب :ایسی بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کا ایمان کمزور ہو یا جو ایمان سے محروم ہو نیزجو تاریخ کے بارے میں جاہل اور اسباب نصرت سے ناواقف ہو۔ اسلام کے ابتدائی دور میں امت اسلامیہ جب اپنے دین سے وابستہ تھی، تو اسے عزت وسربلندی، قوت اور زندگی کے تمام میدانوں میںغلبہ حاصل تھا، بلکہ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مغرب نے تمام علوم و فنون میں مسلمانوں کی ابتدائے اسلام کی ترقی ہی سے استفادہ کیا ہے لیکن مسلمانوں نے جب اپنے دین کے بہت سے حصے کو چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ کے دین میں عقیدے اور قول و فعل کے اعتبار سے بہت سی ایسی باتیں ایجاد کر لیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں، اس کی پاداش میں وہ ترقی کے میدان میں بہت پیچھے رہ کر پسماندگی کا شکار ہوگئے۔ ہمیں یقینی طور پر علم ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم اپنے اسلاف کی طرح اپنے دین سے وابستہ ہو جائیں تو ہمیں بھی عزت وسربلندی نیز دنیا کے تمام لوگوں پر غلبہ حاصل ہو سکتا ہے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ہرقل شاہ روم سے، جس کی سلطنت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی، گفتگو کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات بیان کیے تو ہرقل نے کہا تھا: ’’تم جو کچھ کہہ رہے ہو اگر یہ بات سچی ہے تو یہ شخص میرے ان دونوں قدموں کے نیچے کی زمین کا عنقریب مالک بن جائے گا۔‘‘ ابوسفیان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جب ہرقل کے دربار سے باہر نکلا تو کہنے لگا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ بہت مضبوط ہوگیا ہے کہ رومیوں کا بادشاہ بھی ان سے ڈرنے لگا ہے۔[1] مغرب کی کافر اور ملحد حکومتوں کو صنعتوں وغیرہ میں جو ترقی حاصل ہوئی ہے، ہمارا دین اس کی راہ کسی صورت میں مانع اور حاجز نہیں۔ اگر ہم اس کی طرف توجہ دیں تو ہم بھی صنعت وحرفت کے میدان میں ترقی کر سکتے ہیں لیکن افسوس کہ ہم نے دنیا کو بھی ضائع کر دیا اور دین کو بھی ورنہ دین اسلام دنیوی ترقی کا مخالف نہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ﴾ (الانفال: ۶۰) ’’اور ان (کافروں کے مقابلے) کے لیے تم مقدور بھر قوت اور جنگی گھوڑے تیار رکھو جن سے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرائے رکھو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہِ﴾ (الملک: ۱۵) ’’وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم ( یعنی تابع) کردیا، لہٰذا تم اس کی راہوں میں چلو پھرو اور اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ (البقرۃ: ۲۹) ’’وہی تو ہے جس نے سب چیزیں، جو زمین میں ہیں، تمہارے لیے پیدا کیں۔‘‘ علاوہ ازیں اور بھی بہت سی آیات کریمہ ہیں جو واشگاف انداز میں یہ اعلان کر رہی ہیں کہ انسان کو کمانا چاہیے، عمل کرنا چاہیے
Flag Counter