Maktaba Wahhabi

244 - 442
اس کا وارث نہیں ہوگا کیونکہ حدیث حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا یَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ وَلَا الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ)) (صحیح البخاری، الفرائض باب لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم، ح: ۶۷۶۴ وصحیح مسلم، الفرائض، باب لا یرث المسلم الکافر ولا یرث الکافر المسلم، ح:۱۶۱۴۔) ’’مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوتا۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے: ((أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَہْلِہَا فَمَا بَقِیَ فَلِأَوْلَی رَجُلٍ ذَکَرٍ)) (صحیح البخاری، الفرائض، باب میراث الولد من ابیہ وامہ، ح: ۶۷۳۲ وصحیح مسلم، الفرائض، الحقوا الفرائض باہلہا، ح: ۱۶۱۵۔) ’’میراث کے حصے ان کے حق داروں کو دے دو اور جو باقی بچ جائے وہ قریب ترین مرد کے لیے ہے۔‘‘ یہ مثال تمام وارثوں پر منطبق ہوتی ہے: ۶۔ بے نمازی جب مر جائے تو اسے غسل نہیں دیا جائے گا، کفن نہیں دیا جائے گا، اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور اسے مسلمانوں کے ساتھ دفن بھی نہیں کیا جائے گا، تو پھر اس کے ساتھ ہم کیا کریں؟ اسے صحرا میں لے جائیں گے اور ایک گڑھا کھود کر، اس کے اپنے کپڑوں سمیت اسے دفن کر دیں گے کیونکہ اس کی کوئی حرمت نہیں۔ لہٰذا کسی کے لیے یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس کوئی ایسا شخص فوت ہو جائے جس کے بارے میں اسے معلوم ہو کہ یہ نماز نہیں پڑھتا، مگر وہ اسے مسلمانوں کے سامنے لائے تاکہ وہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں۔ ۷۔ یہ قیامت کے دن فرعون، ہامان، قارون اور ابی بن خلف جیسے ائمہ کفر کے ساتھ اٹھایا جائے گا، (والعیاذ باللّٰہ) یہ جنت میں بھی داخل نہیں ہوگا، اس کے گھر والوں میں سے کسی کے لیے یہ حلال نہیں کہ اس کے لیے رحمت ومغفرت کی دعا کرے کیونکہ وہ کافر ہے اور دعاء خیر کا مستحق نہیں ،اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ، ﴾ (التوبۃ: ۱۱۳) ’’پیغمبر اور مسلمانوں کو شایان نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہل دوزخ ہیں تو ان کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قرابت دار ہی ہوں۔‘‘ یہ مسئلہ بے حد اہم ہے مگر افسوس کہ بعض لوگ اس معاملہ میں بہت سستی کرتے ہیں اور وہ اپنے گھر میں ایسے لوگوں کو برداشت کر لیتے ہیں جو نماز نہیں پڑھتے حالانکہ یہ جائز نہیں۔[1] واللّٰہ اعلم
Flag Counter