Maktaba Wahhabi

317 - 442
اسی آخری بات کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اختیار کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جواز قصر کے لیے کسی معین مسافت کو بیان نہیں فرمایا ہے۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی مخصوص مسافت کا تعین نہیں فرمایا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: ((کَانَ النبیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إِذَا خَرَجََ ثَلَاثَۃِ أَمْیَالٍ أَوْ ثَلَاثَۃِ فَرَاسِخَ قصر الصلاۃ وصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ)) (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب صلاۃ المسافرین، ح:۶۹۱۔) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت کے لیے سفر فرماتے تو نماز قصر ادا کرتے اور صرف دو رکعتیں پڑھتے تھے۔‘‘ اختلاف عرف کی صورت میں مسافت کے تعین کے متعلق قول پر عمل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ بھی بعض ائمہ اور علماء مجتہدین کا قول ہے، لہٰذا اس میں بھی ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں، اور اگر عرف و عادت باقاعدہ طے ہو تو پھر عرف کی طرف رجوع کرنا ہی درست ہے۔[1] اب رہا سوال کہ جب قصر جائز ہو تو کیا جمع کرنا بھی جائز ہے؟ ہم عرض کریں گے کہ جمع قصر کے ساتھ مشروط نہیں ہے، جمع کا تعلق ضرورت وحاجت سے ہے۔ انسان کو سفر وحضر میں جب جمع کی ضرورت درپیش ہو تو جمع کر لے۔ یہی وجہ ہے کہ بارش کی وجہ سے جب مسجد میں جانے میں مشقت اور دشواری محسوس ہو تی ہے تو لوگ نمازوں کو جمع کر کے ادا کر لیتے ہیں، اسی طرح جب موسم سرما میں شدید ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو اور مسجد میں جانے میں مشقت درپیش ہو تو نمازوں کو جمع کر کے ادا کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جب مال کے ضائع ہونے یا اسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو انسان نماز کو جمع کر کے ادا کر سکتا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایاہے کہ: ((جَمَعَ رَسُولُ النبیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بَیْنَ الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَآئِ من غَیْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ)) (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر، ح: ۷۰۵۔) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو کسی خوف یا بارش کے بغیر جمع کیا۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ آپ چاہتے تھے کہ ترک جمع کی وجہ سے امت کسی حرج میں مبتلا نہ ہوجائے۔ ضابطہ یہی ہے کہ ترک جمع کی وجہ سے جب انسان کسی حرج میں مبتلا ہو تو جمع کرنا جائز ہے اور اگر حرج نہ ہو تو پھر جمع کرنا جائز نہیں، سفر میں ترک جمع کی وجہ سے حرج کا اندیشہ ہوتا ہے، لہٰذا مسافر کے لیے جمع کرنا جائز ہے، خواہ اسے سفر کو جاری رکھا ہو یا اس نے اقامت اختیار کر لی ہو، چنانچہ مسافر کے لیے جمع اور مقیم کے لیے ترک جمع افضل ہے۔ اس سے یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ انسان جب کسی ایسے شہر میں مقیم ہو جس میں جماعت کا اہتمام ہو تو پھر نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا واجب ہے، لہٰذا اس صورت میں نہ جمع کرے گا اور نہ قصر۔ اگر جماعت نہ مل سکی ہو تو پھر قصر کر لے اور جمع نہ کرے الایہ کہ اسے جمع کرنے کی ضرورت ہو۔
Flag Counter