Maktaba Wahhabi

36 - 442
عبادات کے اعتبار سے آپ دیکھیں گے کہ عبادات کی تمام اقسام، صفات، ان کی مقدار، اوقات، مقامات اور اسباب وغیرہ کے لحاظ سے ان کی مکمل وابستگی اس طریقے کے مطابق ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے دین میں بدعات کو ایجاد نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حد درجہ ادب کو اختیار کر رکھا ہے اور عبادات میں کسی ایسی چیز کو داخل کر کے، جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہ دیا ہو، یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام سے تجاوز نہیں کرتے۔ اخلاق کے اعتبار سے بھی آپ ملاحظہ کریں گے کہ حسن اخلاق میں یہ دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں امتیازی شان رکھتے ہیں، مثلاً: مسلمانوں کی ہمدردی وخیرخواہی، انبساط قلب وانشراح صدر، خندہ پیشانی ونرم خوئی، شیریں کلامی، جو دوسخا، شجاعت و بسالت یہ اور اس نوع کے دیگر مکارم و محاسن اخلاق میں ان کے قدم دوسرے لوگوں سے بہت آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ معاملات میں بھی آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگوں کے ساتھ راست بازی کا معاملہ کرتے ہیں اور خریدو فروخت کے وقت ہر بات کو بیان کر دیتے ہیں، جیسا کہ اس باب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا، فَاِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُورِکَ لَہُمَا فِی بَیْعِہِمَا، وَاِنْ کَذَبَا وَکَتَمَا مُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا)) صحیح البخاری، البیوع، باب اذا بین البیعان ولم یکتما ونصحا، ح:۲۰۷۹ وصحیح مسلم، البیوع، باب الصدق فی البیع والبیان، ح:۱۵۳۲۔) ’’خریدو فروخت کرنے والوں میں سے دونوں کو اس وقت تک اختیار ہے، جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں، اگر دونوں سچ بولیں اور (عیب کو) بیان کر دیں تو ان کی بیع میں برکت پیدا کر دی جائے گی اور اگر دونوں جھوٹ بولیں اور (عیب کو) چھپائیں تو ان کی بیع سے برکت کو ختم کر دیا جائے گا۔‘‘ ان خصوصیات میں کمی انسان کو فرقہ ناجیہ سے خارج نہیں کرتی، البتہ لوگوں کے درجات ان کے اعمال کے مطابق ہوں گے۔ ہاں! توحید میں کمی، مثلاً: اخلاص میں کوتاہی یا بدعت کا ارتکاب انسان کو بسا اوقات فرقہ ناجیہ سے خارج کرنے کا موجب ہو سکتا ہے۔ اخلاق ومعاملات میں کمی سے انسان فرقہ ناجیہ سے خارج نہیں ہوتا، البتہ اس سے انسان کے مقام ومرتبہ میں ضرور کمی ہو جاتی ہے۔ اخلاق کے مسئلے میں کچھ تفصیل سے بیان کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اخلاقیات کے سلسلہ میں سب سے اہم بات اجتماعیت اور اس دین حق کو قائم کرنا ہے جس کے قائم کرنے کی اللہ تعالیٰ نے حسب ذیل آیت کریمہ میں ہمیں نصیحت فرمائی ہے: ﴿شَرَعَ لَکُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصَّی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ وَالَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ اِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ﴾ (الشوری: ۱۳) ’’اس نے تمہارے دین کا وہی راستہ مقرر کیا جس کے اختیار کرنے کا نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی (اے محمد!) ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا (وہ یہ) کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جن لوگوں نے دین میں پھوٹ ڈالی اور وہ فرقے فرقے ہوگئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان
Flag Counter