Maktaba Wahhabi

41 - 442
یقین میں کمزوری آجاتی ہے جو مجلس میں حاضری کے وقت تھی۔ اسی طرح قول سے بھی ایمان میں اضافہ ہوتا ہے کہ جو شخص دس بار اللہ کا ذکر کرے، وہ اس شخص کی طرح تو نہیں ہو سکتا جس نے سو بار اللہ کا ذکر کیا ہو، پہلے کی نسبت اس دوسرے شخص کے ایمان میں بدرجہا اضافہ کی حامل ہے۔ اسی طرح جس شخص نے عبادت کو بہت کامل طریقے سے ادا کیا ہو اس کا ایمان اس شخص کے ایمان سے کہیں بڑھ کر ہوگا۔ جس نے عبادت کو ناقص رہنے دیا ہو۔ اسی طرح جب کوئی انسان اپنے اعضا وجوارح کے ساتھ دوسرے انسان کی نسبت زیادہ عمل سرانجام دے تو دوسرے کی نسبت اس کا ایمان بہرحال بہت زیادہ ہوگا، قرآن وسنت سے ایمان میں کمی بیشی ثابت ہے، مثلاً: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَہُمْ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَیَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِیْمَانًا﴾ (المدثر: ۳۱) ’’اور ان (جہنم کے فرشتوں) کا شمار کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کیا ہے اور اس لیے کہ اہل کتاب یقین کریں اور مومنوں کا ایمان اور زیادہ ہو۔‘‘ اور مزید فرمایا: ﴿وَ اِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ فَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّکُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہٖٓ اِیْمَانًا فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّ ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ، وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا اِلٰی رِجْسِہِمْ وَ مَاتُوْا وَ ہُمْ کٰفِرُوْنَ، ﴾ (التوبۃ: ۱۲۴۔۱۲۵) ’’اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو بعض منافق (استہزا کرتے اور) پوچھتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کا ایمان زیادہ کیا ہے، تو جو ایمان والے ہیں ان کا تو ایمان زیادہ کیا اور وہ خوش ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں مرض ہے ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا اور وہ مرے بھی تو کافر کے کافر۔‘‘ اور صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا رَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَّ دِیْنٍ اَذْہَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ اِحْدَاکُنَّ)) صحیح البخاری، الحیض، باب ترک الحائض الصوم، ح:۳۰۴۔) ’’میں نے دین اور عقل میں ناقص تم عورتوں سے زیادہ اچھے بھلے آدمی کی مت مارنے والا کسی کو نہیں پایا۔‘‘ معلوم ہوا کہ ایمان میں اضافہ اور کمی ہو سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایمان میں اضافے کا سبب کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان میں اضافے کے کئی اسباب ہیں، مثلاً: ٭اللہ تعالیٰ کی اس کے اسماء و صفات کے ساتھ معرفت: انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماء وصفات کے بارے میں جس قدر زیادہ معرفت حاصل ہوگی، اسی قدر بلا شک وشبہ اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اہل علم جنہیں اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا وہ علم ہے جو دوسروں کو نہیں ہے تو اس اعتبار سے دوسروں کی نسبت ان کا ایمان زیادہ قوی ہوتا ہے۔ ٭اللہ تعالیٰ کی کونی وشرعی نشانیوں پر غور کرنا: انسان اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں پر، جو اس کی مخلوقات ہیں، جب بھی غور کرتا ہے تو اس
Flag Counter