Maktaba Wahhabi

43 - 442
((اَ لْاِیْمَانُ اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ، وَمَلَائِکَتِہِ، وَکُتُبِہِ، وَرُسُلِہِ، وَالْیَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ)) (صحیح البخاری، الایمان، باب سوال جبرئیل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الایمان والاسلام والاحسان، ح: ۵۰ ومسلم، الایمان، باب بیان الایمان والاسلام والاحسان… ح:۸) ’’(ایمان یہ ہے) کہ تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاؤ اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان ویقین رکھو۔‘‘ اور حدیث وفد عبدالقیس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی تعریف یہ بیان فرمائی ہے: ((بِشَہَادَۃِ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَاِقَامِ الصَّلَاۃِ، وَاِیْتَائِ الزَّکَاۃِ، وَاَدَائِ الْخُمُسِ مِنَ الْغَنِیْمَۃِ)) صحیح البخاری، الایمان، باب اداء الخمس من الایمان، ح: ۵۳ وصحیح مسلم، الایمان، باب الامر بالایمان باللّٰه تعالی ورسولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم … ح:۱۷) ’’ایمان یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور مال غنیمت میں سے خمس ادا کرو۔‘‘ ان دونوں حدیثوں میں تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟ جواب: اس سوال کے جواب سے قبل میں یہ بات کہنا پسند کروں گا کہ کتاب وسنت میں قطعاً کوئی تعارض نہیں ہے، نہ تو قرآن مجید کا کوئی مقام کسی دوسرے مقام سے متعارض ہے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صحیحہ ہی میں کوئی تعارض ہے۔ قرآن وسنت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو امر واقع کے خلاف ہو کیونکہ امر واقع حق ہے اور کتاب وسنت بھی حق ہے، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ حق میں تناقض ہو، اس قاعدے کو سمجھ لینے سے بہت سے اشکالات دور ہو جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿َفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا، ﴾ (النساء: ۸۲) ’’بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔‘‘ جب قرآن مجید میں کوئی اختلاف نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بھی کوئی اختلاف نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر ایک حدیث میں ایمان کی کوئی تعریف بیان فرمائی ہے اور دوسری حدیث میں کوئی دوسرااندازبیان بطور تعریف اختیارکیا ہے، جو آپ کی نظر میں پہلی تعریف کے خلاف ہے، لیکن حقیقت میں اگر آپ ان دونوں تعریفوں پر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حدیث جبرئیل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کو درج ذیل تین اقسام میں تقسیم فرمایا ہے: (۱)اسلام (۲)ایمان اور (۳)احسان حدیث وفد عبدالقیس میں آپ نے صرف ایک ہی قسم یعنی اسلام کو بیان فرمایا ہے اور جب اسلام کا علی الاطلاق ذکر ہو تو اس میں ایمان بھی داخل ہوتا ہے کیونکہ شعائر اسلام کو ایک مومن ہی قائم کر سکتا ہے۔ جب اکیلے اسلام کا ذکر ہو تو اس ایمان اس کے ضمن خودبخود شامل ہواکرتا ہے اور جب تنہا ایمان کا ذکر ہو تو اس میں اسلام بھی داخل ہوتا ہے اور جب اسلام وایمان دونوں کا ذکر ہوتو اس صورت میں ایمان کا تعلق دلوں سے اور اسلام کا تعلق جسمانی اعضاء سے ہوتا ہے۔ ایک طالب علم کے لیے یہ بہت اہم نکتہ ہے، چنانچہ جب اکیلے اسلام کا ذکر ہو تو اس میں ایمان بھی داخل ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter