Maktaba Wahhabi

47 - 442
انہیں اللہ تعالیٰ سے دور لے جانا چاہتا ہے۔‘‘[1] میں اس سائل سے یہ بھی کہوں گا کہ جب تمہارے سامنے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ وسوسے شیطانی ہیں، تو انہیں وقت وتوانائی صرف کرکے دور ہٹا دو اوران کے خلاف برسرپیکارہوجاؤ یہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے بشرطیکہ تم ان کے خلاف مجاہدہ کرتے رہو، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: -(ان اللّٰه تجاوز عن امتی ما وسوست بہ صدورہا ما لم تعمل او تتکلم)) (صحیح البخاری، العتق، باب الخطاء والنسیان فی العتاقۃ والطلاق، ح: ۲۵۲۸ وصحیح مسلم، ح: ۱۲۷۔) ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کے سینوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے درگزر کا رویہ اختیارفرمایا ہے، جب تک وہ ان کے مطابق عمل نہ کرے یا ان کے مطابق بات نہ کرے۔‘‘ اگر آپ سے یہ کہا جائے کیا آپ اپنے دل میں آنے والے ان وسوسوں پر اعتقاد رکھتے ہیں؟ یا انہیں حق سمجھتے ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی اس طرح صفت بیان کریں جس طرح آپ کے دل میں وسوسہ آتا ہے؟ تو آپ اس کا یہ جواب دیں کہ ہمیں اس طرح کی بات زبان پر لانا زیب نہیں دیتی، اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور یہ تو بہت بڑا بہتان ہے، آپ دل اور زبان سے اس کی تردید کریں، اس سے نفرت کرتے ہوئے لوگوں میں دور سے دور ترہو تے چلے جائیں اس بنیادپردل میں آنے والے یہ خیالات محض وسوسے ہیں اور شیطان کے جال ہیں، جو انسان کے جسم میں خون کی گردش کی طرح چلتا پھرتارہتاہے تاکہ تمہیں دین سے دور لے جائے اور دین کو تم پر خلط ملط کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی اور حقیر باتوں کے بارے میں شیطان تمہارے دل میں شک وشبہ پیدا نہیں کرتا، مثلاً: تم ہمیشہ دنیا کے ان بڑے بڑے شہروں کے بارے میں سنتے رہتے ہو جو مشرق ومغرب کے ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی آبادی بھی بہت زیادہ ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ انسانوں سے بھرے ہوئے ہیں، مگر ان شہروں کے وجود کے بارے میں تمہارے دل میں کبھی کوئی شک پیدا نہیں ہوا اور نہ کبھی دل میں یہ خیال آیا ہے کہ یہ تو ویرانے اور اجڑے ہوئے دیار ہیں، رہنے سہنے کے قابل ہی نہیں اور نہ ان میں کوئی رہ رہا ہے کیونکہ اس طرح کے کاموں میں تشکیک پیدا کرنے سے شیطان کو کوئی غرض نہیں، البتہ شیطان کی بڑی غرض یہ ضرور ہے کہ وہ مومن کے ایمان کو خراب کر دے۔ وہ اپنے سواروں اورپا پیادوں کے ساتھ مل کر کوشش کرتا ہے کہ مومن کے دل سے علم وہدایت کی روشنی کو بجھا دے اور اسے شک اور حیرت کی تاریکی میں مبتلا کر دے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے ایک مفید دوا کی نشان دہی فرما دی ہے جو موجب شفا ہے اور وہ یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ وسوسے کی حالت میں انسان اعوذ باللّٰہ پڑھ لے اور وسوسے کو ترک کر دے۔ جب انسان وسوسے کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگا رہے تاکہ اس کی رضا اور اجر وثواب کو حاصل کر سکے تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وسوسہ ختم ہو جائے گا۔ ان تمام خیالات کو اپنے دل سے جھٹک دیا کرو جبکہ تم اللہ کی عبادت کر رہے ہو، اس سے دعا کر رہے ہو اور اس کی عظمت و بزرگی کے گن گا رہے ہو۔ اگر تم کسی کو سن لو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں وہ کچھ کہہ رہا ہے، جو تمہارے دل میں بصورت وسوسہ پیدا ہو رہا ہے، تو تمہارا بس چلے تو تم اسے قتل کر دو، تو اس سے بھی معلوم ہوا کہ تمہارے دل میں پیدا ہونے والی ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ
Flag Counter