Maktaba Wahhabi

51 - 442
کے عمل اور رزق کی مقدار کتنی ہوگی، شقاوت اور سعادت کے اعتبار سے اس کی کیا کیفیت ہوگی اور یہ نر ہوگا یا مادہ۔ یہ تمام امور تخلیق سے قبل غیبی ہیں، جب کہ تخلیق کے بعد تو یہ علم حاضر ہوگیا، البتہ یہ ضرور ہے کہ اس وقت جنین تین اندھیروں میں مستور ہوتا ہے اگر ان اندھیروں کو زائل کر دیا جائے تو اس کا معاملہ واضح ہو جاتا ہے اور یہ بات کوئی بعید نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسی قوی شعاعیں پیدا کر رکھی ہیں جو ان اندھیروں کو پھاڑ دیتی ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ جنین نر ہے یا مادہ اور آیت کریمہ میں نر یا مادہ کے علم کے بارے میں کوئی تصریح نہیں، اسی طرح سنت میں بھی ایسی کوئی تصریح موجود نہیں ہے کہ اس علم سے مراد نر یا مادہ کا علم ہے۔ سائل نے ابن جریر کے حوالے سے امام مجاہد رحمہ اللہ کی جو یہ روایت ذکر کی ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا کہ اس کی بیوی کیا جنے گی؟ تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے، یہ روایت منقطع ہے کیونکہ امام مجاہد رحمہ اللہ تابعین میں سے ہیں۔ امام قتادہ رحمہ اللہ نے جو تفسیر بیان کی ہے تو ممکن ہے کہ اسے اس بات پر محمول کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے اختصاص کا تعلق تخلیق سے پہلے کا ہے اور تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں دوسروں کو بھی معلوم کرا دیتا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورۂ لقمان کی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’اسی طرح اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ آئندہ ان ارحام سے کیا کچھ پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن جب جنین کے بارے میں وہ حکم دے دیتا ہے کہ یہ نر ہے یا مادہ، بدبخت ہے یا خوش بخت تو وہ یہ باتیں اس جنین کے ساتھ موکل فرشتوں کو اور اپنی مخلوق میں سے جسے چاہے معلوم کروا دیتا ہے۔‘‘ آپ نے جو یہ پوچھا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ: ﴿مَا فِی الْاَرْحَامِ﴾ میں عموم کا مخصص کیا ہے، تو ہم عرض کریں گے کہ اگر آیت تخلیق کے بعد نر یا مادہ کو بیان کرتی ہے، تو مخصص انسانی حس اور امر واقع ہیں۔ علمائے اصول نے بیان کیا ہے کہ کتاب وسنت کے عموم کے مخصصات نص یا اجماع یا قیاس یا عقل ہیں، علمائے اصول کا کلام اس بارے میں معروف ہے۔ اگر آیت کا تعلق تخلیق سے قبل کی حالت سے ہے، تو پھر یہ اس بات کے معارض نہیں ہے جو جنین کے نر یا مادہ کے معلوم ہو جانے کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے۔ بحمدللہ امر واقع کے اعتبار سے نہ کوئی ایسی چیز موجود ہے اور نہ کبھی موجود ہوگی جو قرآن کریم کی صراحت کے خلاف ہو۔ دشمنانِ اسلام نے قرآن کریم پر طعن وتشنیع کرتے ہوئے، ایسے امور کی نشان دہی کی ہے جو قران کریم کے ساتھ ظاہراً متعارض ہیں، تو اس کی وجہ یا تو کتاب اللہ کے بارے میں ان کے فہم کا قصور ہے یا ان کی نیت میں خرابی ہے۔ جہاں تک اہل دین و علم کا تعلق ہے تو وہ بحث و تحقیق کے بعد اس حقیقت تک پہنچ گئے ہیں، جس کے سامنے ان لوگوں کے تمام شکوک وشبہات ختم ہو جاتے ہیں۔ وللّٰه الحمد والمنۃ۔ اس مسئلے میں کچھ لوگ افراط اور تفریط میں مبتلا ہیں اور کچھ معتدل ہیں۔ کچھ لوگوں نے قرآن مجید کے ظاہر کو لے لیا ہے، جو صریح نہیں ہے اور پھر انہوں نے اس کے خلاف ہر واقعی اور یقینی امر کی مخالفت کی ہے اور اس طرح انہوں نے اپنے قصور فہم اور کوتاہی کی وجہ سے اپنے آپ کو مورد الزام قرار دے لیا ہے یا پھر قرآن کریم پر اعتراض کا باعث بنے ہیں جو ان کی نظر میں یقینی اور امر واقع کے خلاف ہے۔ کچھ لوگوں نے اس چیز سے اعراض کیا ہے جس پر قرآن کریم کی دلالت ہے اور انہوں نے محض مادی امور کو اختیار کر لیا ہے اور اس طرح یہ ملحد بن گئے ہیں۔ معتدل وہ لوگ ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی دلالت کو لیا ہے اور امر واقع کے ساتھ اس کی تصدیق کی ہے اور جان لیا ہے کہ قرآن
Flag Counter