Maktaba Wahhabi

74 - 442
نہیں۔‘‘[1] مشہور بات یہ ہے کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ حجر اسود زمین میں اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ ہے، جس نے اس سے مصافحہ کیا اور بوسہ دیا گویا اس نے اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کیا اور اس کے دائیں ہاتھ کو بوسہ دیا۔‘‘ نیز فرمایا: ’’یہ بات بالکل صریح ہے کہ حجر اسود اللہ کی صفت ہے نہ اس کا اپنا دایاں ہاتھ۔‘‘ کیونکہ اس میں یہ فرمایا ہے: ’’زمین میں اللہ کا دایاں ہاتھ‘‘ اسے زمین کے ساتھ مقید بیان کیا ہے، مطلق اللہ کا دایاں ہاتھ نہیں کہا۔ اور لفظ مقید کا حکم مطلق کے مخالف ہوتا ہے۔‘‘ اور پھر یہ بھی کہا: ’’جس نے اسے بوسہ دیا اور مصافحہ کیا تو اس نے گویا اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کیا اور اس کے دائیں ہاتھ کو بوسہ دیا اور یہ حقیقت معلوم ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہ الگ الگ ہوتے ہیں۔‘‘[2] میں عرض کرتا ہوں کہ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی کسی ایسی صفت کا ذکر نہیں ہے جس کی اس کے ظاہری معنی کے خلاف تاویل کی گئی ہو، اس میں قطعاً کوئی تاویل نہیں ہے۔ اور سائل نے جو یہ کہا تھا کہ دو مکاتب فکر ہیں، جن میں سے ایک ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مکتب فکر ہے۔ تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اس مدرسہ کی ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف نسبت وہم ہے، اس سے پہلے کسی نے یہ بات نہیں کی، لہٰذا یہ بات غلط ہے کیونکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جو مذہب اختیار کیا تھا وہ وہی تھا جو سلف صالحین اور اس امت کے ائمہ کا مذہب تھا، لہٰذا انہوں نے اس مدرسہ فکر کو ایجاد نہیں کیا تھا جیسا کہ سائل کے انداز بیان سے معلوم ہو رہا ہے اس طرح کے انداز تخاطب سے سائل ان کی شان میں کمی کرنا چاہتا ہے۔ واللّٰہ المستعان تاویل کرنے والے علماء کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ ان میں سے جو لوگ حسن نیت کے ساتھ معروف ہیں اور دین اور اتباع سنت میں پختہ ہیں تو وہ تاویل کرنے میں معذور ہیں، لیکن اس معذوری کے یہ معنی نہیں کہ ان کا یہ طریقہ غلط نہیں جو سلف صالحین کے اس عمل کے مخالف ہے کہ نصوص کو ان کے ظاہر ہی پر رہنے دیا جائے اور اسی عقیدے کو اختیار کیا جائے، جو تکییف و تمثیل کے بغیر ان نصوص کے ظاہر سے معلوم ہو رہا ہے، لہٰذا واجب ہے کہ قول اور قائل، فعل اور فاعل کے بارے میں حکم میں فرق کیا جائے۔ اگر بات اجتہاد اور حسن قصد پر مبنی ہو تو اس کے قائل کو قابل مذمت نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اجتہاد کی وجہ سے اسے اجر ملے گا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ اَصَابَ فَلَہُ اَجْرَانِ، وَاِذَا حَکَمَ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ اَخْطَأَ فَلَہُ اَجْرٌ)) (صحیح البخاری، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب اجر الحاکم اذا اجتہد فاصابا او اخطا، ح: ۷۳۵۲ وصحیح مسلم، الاقضیۃ، باب بیان اجر الحاکم اذا اجتہد… ح: ۱۷۱۶۔) ’’جب کوئی حاکم فیصلہ کرے اور اجتہاد سے کام لے اور اس کا اجتہاد درست بھی ہو تو اسے دو اجر ملیں گے اور اگر وہ فیصلہ کرتے ہوئے اجتہاد سے کام لے اور غلطی کر جائے تو اسے ایک اجر ملے گا۔‘‘ جہاں تک تاویل کرنے والے ایسے شخص کو گمراہ قرار دینے کی بات ہے۔ اگر اس گمراہی سے مراد وہ مطلق گمراہی ہے جس کی وجہ سے کسی گمراہ کو قابل مذمت قرار دے کر اس سے ناراضی کا اظہار کیا جاتا ہے، تو اس طرح کی گمراہی کا اطلاق ایسے مجتہد پر نہیں کیا
Flag Counter