Maktaba Wahhabi

76 - 442
اللہ تعالیٰ کے ان اسمائے حسنیٰ کو معلوم کرنا ممکن ہی نہیں جنہیں اس نے اپنے پاس علم غیب میں رکھنے کو ترجیح دی ہے اور جو چیز معلوم نہ ہو وہ کسی عدد میں محصور بھی نہیں ہوسکتی۔ جہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا تعلق ہے: ((اِنَّ للّٰه تِسْعَۃً وَّتِسْعِینَ اِسْمًا مَنْ أَحْصَاہَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ)) (صحیح البخاری، الشروط، باب ما یجوز من الاشراط… ح: ۲۷۳۶، صحیح مسلم، الذکر والدعاء، باب فی اسماء اللّٰه تعالی و فضل من احصاہا، ح: ۲۶۷۷۔) ’’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، جس نے انہیں شمار کیا (انہیں یاد کیا اور پڑھا) تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے صرف یہی اسماء ہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے جو ان ننانوے اسماء کو شمار کرے گا تو وہ اس عمل کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگا: (مَنْ اَحْصَاہَا) ’’جو انہیں شمار کرے گا‘‘ یعنی انہیں یاد کرے گا اور پڑھے گا، یہ الگ نیا جملہ نہیں بلکہ پہلے جملے ہی کا تتمہ اور تکملہ ہے۔ اس کی نظیر اہل عرب کا یہ قول ہے: ’’میرے پاس سو گھوڑے ہیں جنہیں میں نے اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے تیار کر رکھا ہے۔‘‘ اس جملے کے یہ معنی نہیں کہ اس شخص کے پاس بس صرف یہی سو گھوڑے ہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ سو گھوڑے اس کام کے لیے تیار ہیں جس کو وہ انجام دینا چاہتا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اس بات پر ماہرین حدیث کا اتفاق ہے کہ ان (۹۹ناموں) کو گننا اور مسلسل ورد کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ بلاشبہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ سچ فرمایا ہے کیونکہ ان اسماء کے بارے میں بہت زیادہ اختلافات ہیں۔ جنہوں نے اس حدیث کو صحیح قرار دینے کی کوشش کی ہے انہوں نے کہا ہے کہ یہ ایک بڑی عظیم الشان بات ہے کہ یہ ننانوے اسماء حسنی جنت میں پہنچانے والے ہیں، اگر ایسا ہی ہے جیساکہ ان کا دعوی ہے تو یہ بات کیسے ممکن ہے کہ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان اسماء کی تعیین کے بارے میں سوال نہ کریں، یہ دلیل ہے اس بات کی کہ ان کی تعیین نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف سے ہے لیکن اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کے بارے میں پوچھا ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اسماء کی تعیین فرمائی دی ہو کیونکہ اگر معاملہ اسی طرح ہے جیساکہ بیان ہوا تو ان ننانوے اسمائے حسنیٰ کا علم اظہر من الشمس ہوتا اور صحیحین وغیرہ میں یہ ضرور منقول ہوتے، کیونکہ لوگوں کو ان کی شدید ضرورت تھی مگر اس کا کیا کیا جائے کہ یہ ضعیف سندوں کے ساتھ مختلف صورتوں میں منقول ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بلیغ حکمت کے پیش نظر انہیں بیان نہیں فرمایا اور وہ بلیغ حکمت یہ تھی کہ لوگ خود انہیں کتاب اللہ وسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تلاش کریں تاکہ معلوم ہو کہ کس کو ان کا شوق ہے اور کس کو شوق نہیں ہے۔ انہیںشمار کرنے کے یہ معنی نہیں کہ انہیں کاغذ کے پرزوں پر لکھا جائے اور پھر بار بار پڑھا جائے تاکہ حفظ ہو جائیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں: ٭ ان کے الفاظ کا احاطہ کیا جائے۔ ٭ ان کے معنی و مفہوم کو سمجھا جائے۔ ٭ ان کے تقاضے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور اس کی دو صورتیں ہیں: ۱:…ان اسماء کا وسیلہ کے ساتھ دعا کی جائے، کیونکہ رشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَادْعُوْہُ بِہَا﴾ (الاعراف: ۱۸۰)
Flag Counter