Maktaba Wahhabi

25 - 442
’’تو جو (اتنی مخلوقات) پیدا کرے، کیا وہ اس جیسا ہے جو کچھ بھی پیدا نہ کر سکے، پھر تم غور کیوں نہیں کرتے؟‘‘ بلاشبہ اللہ وحدہ ہی خالق ہے، اس نے ہر چیز کو پیدا کیااور پھر اس کا ایک اندازہ ٹھہرایا ہے۔ اس کی صفت خلق ان چیزوں کو شامل ہے، جن کو اس نے پیدا فرمایا اور ان تمام چیزوں کو بھی جنہیں اس کی مخلوق بناتی ہے، لہٰذا تقدیر کے ساتھ ایمان صرف اسی صورت میں مکمل ہو سکتا ہے کہ آپ اس بات پر بھی ایمان لائیں کہ اپنے بندوں کے افعال کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ، ﴾ (الصافات: ۹۶) ’’تم کو اور جو اعمال تم کرتے ہو، ان کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔‘‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ بندے کا فعل اس کی صفت ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور جو کسی چیز کا خالق ہو وہ اس کی صفات کا بھی خالق ہوتا ہے۔ اور اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ بندے کا فعل اس کے پختہ ارادے اور مکمل قدرت ہی کے ساتھ وجود میں آتا ہے اور ارادہ وقدرت کو اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا فرمایا ہے اور سبب تام کا خالق ہی مسبب کا خالق ہوتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ اس میں تطبیق کیسے ہوگی کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی خالق ہے جبکہ غیر اللہ کے لیے بھی تخلیق ثابت ہے، مثلاً: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ، ﴾ (المومنون: ۱۴) ’’اللہ جو سب سے بہتر بنانے والا ہے، بڑا بابرکت ہے۔‘‘ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصوروں کے بارے میں فرمایا ہے: ((یُقَالُ لَہُمْ: اَحْیُوا مَا خَلَقْتُمْ)) صحیح البخاری، البیوع، باب التجارۃ فیما یکرہ لبسہ للرجال والنساء، ح: ۲۱۰۵، وصحیح مسلم، اللباس، باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان… ح: (۲۱۰۶)(۹۶)۔ ’’ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے پیدا کیا ہے، اس میں جان ڈالو۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ غیر اللہ کا پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے کی طرح نہیں ہے کیونکہ غیر اللہ کے لیے کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا یا کسی مردہ کو زندہ کر دینا ممکن نہیں ہے۔ غیر اللہ کا پیدا کرنا بس ایک چیز کی کسی حالت کو دوسری حالت میں بدل دینا ہے جب کہ وہ چیز تو اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی ہوتی ہے، مثلاً: مصور جب کوئی تصویر بناتا ہے تو وہ کوئی چیز پیدا نہیں کرتا بلکہ وہ تو زیادہ سے زیادہ یہ کام کرتا ہے کہ ایک چیز کو دوسری چیز سے بدل دیتا ہے، مثلاً: وہ مٹی کو پرندے یا اونٹ کی صورت میں بدل دیتا ہے یا وہ رنگ کے ساتھ سفید چیز کو رنگین بنا دیتا ہے جب کہ رنگ یا سیاہی کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور سفید کاغذ کو بھی اللہ ہی نے پیدا فرمایا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی طرف تخلیق کی نسبت اور مخلوق کی طرف تخلیق کی نسبت میں یہی بنیادی فرق ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اللہ سبحانہ ہی خالق ہے اور پیدا کرنا صرف اسی کی صفت ہے۔ ۲۔ مُلْک: جہاں صفت ملک کا معاملہ ہے تو صفت ملک میں اللہ تعالیٰ کو واحد ماننے کے معنی یہ ہیں کہ اکیلا اللہ ہی ساری کائنات کا مالک ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، ﴾ (الملک: ۱) ’’وہ اللہ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے، بڑی برکت والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
Flag Counter