Maktaba Wahhabi

276 - 442
میرے نزدیک یہ قول راجح ہے اور اگر حدیث حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نہ ہوتی جس کی طرف ابھی ابھی اشارہ کیا گیا ہے، تو یہ قول راجح ہوتا کہ جہری نماز میں مقتدی پر سورۂ فاتحہ واجب نہیں ہے کیونکہ حصول اجر و ثواب میں سننے والا، پڑھنے والے ہی کی طرح ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا تھا: ﴿قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا﴾ (یونس: ۸۹) ’’تمہاری (دونوں کی) دعا قبول کر لی گئی۔‘‘ حالانکہ دعا تو صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کی تھی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ قَالَ مُوْسٰی رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاہٗ زِیْنَۃً وَّ اَمْوَالًا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓی اَمْوَالِہِمْ وَ اشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ، ﴾(یونس: ۸۸) ’’اور موسیٰ نے کہا: اے ہمارے پروردگار! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کی زندگی میں (بہت سا) سازو برگ اور مال و زردے رکھا ہے، اے پروردگار! تاکہ وہ لوگوں کو تیرے رستے سے گمراہ کر دیں، اے پروردگار! ان کے مال کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک عذاب الیم نہ دیکھ لیں۔‘‘ کیا اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے یہ ذکر فرمایا ہے کہ ہارون علیہ السلام نے بھی دعا کی تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ ﴿قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا﴾ ’’تم دونوں کی دعا قبول کر لی گئی۔‘‘ علماء فرماتے ہیں کہ واحد کے بعد تثنیہ کا صیغہ استعمال کرنے میں حکمت یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی اور ہارون علیہ السلام نے آمین کہی تھی۔ اور جہاں تک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: ((مَنْ کَانَ لَہُ اِمَامٌ فَقِرَائَ ۃُ الْاِمَامِ لَہُ قِرَائَ ۃٌ)) (مسند احمد: ۳/ ۳۳۹ وسنن ابن ماجہ، اقامۃ الصلاۃ، باب اذا قراء فانصتوا، ح: ۸۵۰۔) ’’جس شخص کا امام ہو تو امام کی قراء ت اس کی قراء ت ہے۔‘‘ کا تعلق ہے تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ حدیث مرسل ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر کے مقدمے میں لکھا ہے، پھر اس حدیث کے اطلاق کو اس سے استدلال کرنے والے بھی تسلیم نہیں کرتے، ان میں سے بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ مقتدی پر سری نمازوں میں قراء ۃ قرآن واجب ہے، گویا انہوں نے اس کے اطلاق کو تسلیم نہیں کیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اگر امام سکوت ہی نہ کرے، تو مقتدی سورۂ فاتحہ کب پڑھے؟ اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ امام جب پڑھ رہا ہو اس وقت مقتدی بھی اس کے ساتھ ساتھ پڑھ لے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورۂ فاتحہ کی قراء ت فرماتے تو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ ساتھ پڑھ لیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأم القرآنِ فَإِنَّہُ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِہَا)) (سنن ابی داود، الصلاۃ، باب من ترک القراء ۃ فی صلاتہ، ح: ۸۲۳ وجامع الترمذی، الصلاۃ، باب ماجاء فی القراء ۃ خلف الامام،
Flag Counter