Maktaba Wahhabi

369 - 442
نقلی دلیل حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ﴾ (البقرۃ: ۱۸۵) ’’تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو اسے چاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے۔‘‘ اگر روئے زمین پر بسنے والے دور دراز ملک کے باشندوں نے ہلال نہ دیکھا ہو اور اہل مکہ نے دیکھ لیا ہو تو آیت کے مخاطب وہ لوگ کیسے ہو سکتے ہیں جنہوں نے ابھی ہلال نہیں دیکھا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صُومُوا لِرُؤْیَتِہِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْیَتِہِ)) (صحیح البخاری، الصوم، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : اذا رایتم الہلال…، ح:۱۹۰۹ وصحیح مسلم، الصیام، باب وجوب صوم رمضان لرویۃ الہلال، ح: ۱۰۸۱ (۱۸) ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور اسے دیکھ کر ہی روزہ رکھنا ترک کرو۔‘‘ اگر اہل مکہ نے چاند دیکھ لیا ہو، تو ہم اہل پاکستان اور ان کے پیچھے دونوں مشرقی جانب کے ملکوں کے باشندوں کے لیے روزے کو کیسے لازم قرار دے سکتے ہیں؟ جب کہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ان کے افق پر ہلال طلوع نہیں ہواجبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو روئیت ہلال کے ساتھ مشروط قرار دیا ہے۔ جہاں تک عقلی دلیل کا تعلق ہے تو اس بارے میں وہ قیاس صحیح ہے، جس کا معارضہ ممکن ہی نہیں وہ یہ ہے کہ ہمیں خوب معلوم ہے کہ زمین کی مشرقی جہت میں فجر مغربی جہت سے پہلے طلوع ہوتی ہے، تو مشرقی جہت میں جب طلوع فجر ہو جائے، تو کیا مغربی جہت میں رہنے والے ہم لوگوں کے لیے بھی یہ لازم ہوگا کہ ہم کھانے پینے سے رک جائیں جب کہ ہمارے ہاں تو ابھی رات ہوگی؟ اس کا جواب یقینا یہ ہوگا کہ نہیں ہمارے لیے یہ لازم نہیں ہوگا اسی طرح جب مشرقی جہت میں سورج غروب ہو جائے اور ہمارے ہاں ابھی تک دن ہو تو کیا ہمارے لیے روزہ افطار کرنا جائز ہوگا؟ ہمارا جواب یقینا یہ ہوگا کہ نہیں، ہلال بھی مکمل طور پر سورج ہی کی طرح ہے۔ ہلال کا دورانیہ ماہانہ ہے جب کہ سورج کا دورانیہ یومیہ ہے اور جس ذات پاک کا یہ ارشاد ہے: ﴿اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْہُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ وَ لَا تُبَاشِرُوْہُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَبُوْہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ، ﴾ (البقرۃ: ۱۸۷) ’’روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے عورتوں کے پاس جانا جائز کر دیا گیا ہے، وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہے کہ تم (ان کے پاس جانے سے) اپنے حق میں خیانت کرتے تھے، سو اس نے تم پر مہربانی کی اور تمہاری حرکات سے در گزر فرمایا اب (تم کو اختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو اور اللہ نے جو چیز تمہارے لیے لکھ رکھی ہے۔ (یعنی اولاد) اس کو (اللہ سے) طلب کرو اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے، پھر روزہ رکھ کر اسے رات تک پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو ان سے مباشرت نہ کرو۔ یہ اللہ کی حدیں
Flag Counter