Maktaba Wahhabi

370 - 442
ہیں ان کے پاس نہ جانا۔ اسی طرح اللہ اپنی آیتیں لوگوں کے (سمجھانے کے) لیے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیز گار بنیں۔‘‘ اسی نے یہ بھی فرمایا ہے: ﴿فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ﴾ (البقرۃ: ۱۸۵) ’’تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو اسے چاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے۔‘‘ لہٰذا نقلی و عقلی دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کے اعتبار سے ہم ہر علاقے کے لیے وہ حکم لگائیں جو اس کے ساتھ خاص ہے اور اسے اس جیسی علامت کے ساتھ مشروط قرار دیا جائے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اس کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت میں بیان فرمایا ہے اور وہ ہے چاند، سورج یا فجر کی موجودگی۔ سوال ۳۹۴: جب روزہ دار ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہو جائے اور پہلے علاقے میں ہلال شوال کی روئیت کا اعلان کر دیا گیا ہو تو کیا وہ ان کی متابعت میںر وزہ چھوڑ دے گا جب کہ دوسرے علاقے میں ابھی ہلال شوال نظر نہ آیا ہو؟ جواب :جب انسان ایک اسلامی ملک سے دوسرے ملک میں جائے اور وہاں ابھی چاند نظر نہ آیا ہو تو وہ ان کے ساتھ روزے کی حالت میں رہے گا حتیٰ کہ وہاں بھی چاند نظر آجائے کیونکہ روزہ وہ ہے جس دن لوگ روزہ رکھیں اور فطر وہ ہے جس دن لوگ عید الفطر منائیں اور اضحی وہ ہے جس دن لوگ قربانی کریں۔ ملک کی پابندی کرنا ہوگی، خواہ اس صورت میں ایک یا ایک سے زیادہ دنوں کا اضافہ ہوجائے، یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ کسی ایسے ملک کی طرف سفر کرے جہاں غروب آفتاب متاخر ہوتو ہو سکتا ہے کہ اس طرح معمول کے دن سے دو یا تین یا اس بھی زیادہ چندگھنٹوں کا اس میں اضافہ ہو جائے اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جب وہ دوسرے ملک منتقل ہوا تو وہاں تو ابھی ہلال نظر نہیں آیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم چاند دیکھ کر روزہ رکھیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((أَفْطِرُوا لِرُؤْیَتِہِ))( صحیح البخاری، الصوم، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : اذا رایتم الہلال…، ح:۱۹۰۹ وصحیح مسلم، الصیام، باب وجوب صوم رمضان لرویۃ الہلال، ح: ۱۰۸۱ (۱۸) ’’چاند دیکھ کر ہی روزہ افطارکیا کرو۔‘‘ اور اس کے برعکس صورت یہ ہے کہ مثلاً: وہ ایسے ملک سے منتقل ہو جس میں مہینے کا آغاز متاخر ہوا تھا اور ایسے ملک میں جائے جہاں مہینے کا آغاز پہلے ہوگیا تھا تو وہ وہاں کے باشندوں کے ساتھ روزے رکھنا چھوڑ دے گا اور رمضان کے جتنے دن وہ روزے نہ رکھ سکے بعد میں ان کی قضا ادا کرے گا۔ اگر ایک روزہ نہیں رکھ سکا تو ایک اور اگر دو روزے نہیں رکھ سکا تو دو کی قضا ادا کرے گا۔ دوسری صورت میں قضا کا ہم نے اس لیے ذکر کیاہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ مہینہ انتیس دن سے کم یا تیس دن سے زیادہ ہو، اورہم اس سے کہیں گے کہ تم بھی روزے رکھنا بند کر دو، خواہ تمہارے انتیس دن پورے نہ بھی ہوئے ہوں کیونکہ چاند نظر آگیا ہے۔ جب شوال کا چاند نظر آگیا ہے، تو ضروری ہے کہ روزے رکھنے بند کر دیے جائیں اور اگر آپ کے روزے انتیس سے کم ہیں تو اس صورت میں آپ کے لیے لازم ہے کہ آپ اپنے انتیس روزے
Flag Counter