Maktaba Wahhabi

54 - 442
باپ دادا نے گھڑ لیے ہیں، اللہ نے تو ان کی کوئی سند نازل نہیں کی ہے۔‘‘ اور حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ﴾ٓ (یوسف: ۴۰) ’’تم اس کے سوا جن کی عبادت کرتے ہو وہ نام ہی تو ہیں جو خود تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کی کوئی سند نازل نہیں کی۔‘‘ تو لا الہ الا للہ کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور یہ معبود جو اس کے سوا ہیں اور ان کے پجاری ان کی الوہیت کے قائل ہیں، تو ان کی الوہیت حقیقی نہیں بلکہ ان کی الوہیت باطل ہے اور حقیقی الوہیت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے شایان شان ہے۔ اور اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ یہ زبان کے ساتھ اقرار اور دل کی تصدیق کے ساتھ مشروط ہے کہ حضرت محمد بن عبداللہ قریشی ہاشمی(صلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے رسول ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام جن وانس کی طرف مبعوث فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ یٰٓا یُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ نِ جَمِیْعًا الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ، ﴾ (الاعراف: ۱۵۸) ’’(اے محمد!) کہہ دو، اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، وہ جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ تو تم اللہ پر اور اس کے رسول، پیغمبر امی پر، جو خود بھی اللہ پر اور اس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان لاؤ اور ان کی پیروی کرو تا کہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘ اور فرمایا: ﴿تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا، ﴾ (الفرقان:۱) ’’وہ (اللہ عزوجل) بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ جہان والوں کو ہدایت کرے۔‘‘ اس گواہی کا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر اس بات کی تصدیق کی جائے جس کی آپ نے خبر دی ہے، ہر اس کام کو تسلیم کیا جائے جس کا آپ نے حکم دیا ہے اور ہر اس چیز سے اجتناب کیا جائے جس سے آپ نے منع فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اسی طرح کی جائے جس طرح کرنے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طریقہ سکھایا ہے۔ اس گواہی کاتقاضا بھی یہی ہے کہ بندہ یہ عقیدہ رکھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ربوبیت میں کوئی حق نہیں، کائنات میں آپ کو کوئی تصرف حاصل نہیں، اسی طرح عبادت میں بھی آپ کو کوئی حق حاصل نہیں، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو خود اللہ کے بندے ہیں لہٰذا آپ کی عبادت نہیں کی جا سکتی اور آپ اللہ کے رسول ہیں کہ آپ کی تکذیب نہیں کی جا سکتی، آپ اپنے لیے یا کسی کے لیے نفع ونقصان کے مالک نہیں سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ چاہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی
Flag Counter