Maktaba Wahhabi

58 - 442
میں اشکال معلوم ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جو اس سے دعا کرے گا وہ اس کی دعا کو قبول فرمائے گا اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت چند ضروری شرائط کے ساتھ مشروط ہے جو کہ حسب ذیل ہیں: ۱۔ اللہ عزوجل کی ذات پاک کے لیے اخلاص: یعنی انسان دعا میں اخلاص کا ثبوت دے، اللہ تعالیٰ کی طرف حضوری قلب کے ساتھ متوجہ ہو، اس کی جناب میں صدق دل کے ساتھ انابت کرے اور اس بات کو خوب جان لے کہ اللہ تعالیٰ دعا قبول فرمانے پر قادر ہے اور پھر قبولیت کی امید کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اوردعاء کی قبولیت کی آس لگاکر رب کریم کے حضور دعاء کرے۔ ۲۔ دعا کرتے وقت انسان یہ محسوس کرے کہ اسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے استعانت کی شدید ترین حاجت وضرورت ہے اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پاک ہے جو مجبور ومضطر کی دعا کو اس وقت شرف قبولیت سے نوازتا ہے جب وہ اس سے دعا کرے اور اللہ ہی ذات ہر تکلیف کو دورکرنیوالی ہے۔ اگر کوئی شخص اس طرح دعا کرے کہ وہ سمجھتا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بے نیاز ہے، اسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات اقدس سے استعانت کی کوئی ضرورت وحاجت نہیں بلکہ وہ صرف عادت اور روٹین کے طور پر دعا کر رہا ہے تو ایسا شخص بھلا کب اس قابل ہے کہ اس کی دعا کو قبول کیا جائے۔ ۳۔ انسان حرام کھانے سے اجتناب کرے، حرام کھانا انسان اور اس کی دعا کی قبولیت کے حاجزبن کر حائل ہو جاتا ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلاَّ طَیِّبًا وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ تَعَالٰی: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَ اشْکُرُوْا لِلّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ، ﴾ (البقرۃ: ۱۷۲) ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اَغْبَرَ یَمُدُّ یَدَیْہِ اِلَی السَّمَائِ: یَا رَبِّ! یَا رَبِّ! وَمَطْمَعُہُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہُ حَرَامٌ، وَغُذِیَ بِالْحَرَامِ قَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فَاَنَّی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ؟)) (صحیح مسلم، الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا، ح:۱۰۱۵۔) ’’بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک چیز ہی کو قبول فرماتا ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے، جو اس نے رسولوں کو حکم دیا تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، بے شک میں تمہارے عملوں سے، جو تم کرتے ہو، خوب باخبر ہوں۔‘‘ اور فرمایا: ’’اے اہل ایمان! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں ان کو کھاؤ۔‘‘ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جس نے لمبا سفر کیا ہے، پراگندہ حال وپراگندہ بال اور غبار آلودگی کے عالم میں آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر کہتا ہے: اے رب! اے رب! اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے اور اس کا پینا حرام کا ہے اور اس کا لباس حرام کا ہے اور حرام ہی کے ساتھ اس نے پرورش پائی ہے گویاکہ اس کی بود وباش حرام خوری میں ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو؟‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کی دعا کی قبولیت کو بعید ازقیاس قرار دیا ہے اگرچہ اس نے ان ظاہری اسباب کو اختیارکررکھاتھا جن سے دعا قبولیت
Flag Counter