Maktaba Wahhabi

59 - 442
حاصل کرتی ہے اور وہ یہ ہیں: ۱۔ آسمان کی طرف یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف دونوں ہاتھوں کا اٹھانا کیونکہ اللہ تعالیٰ آسمان پر اپنے عرش کے اوپر ہے اور اللہ کی طرف ہاتھ پھیلانا قبولیت کے اسباب میں سے ہے، جیسا کہ اس حدیث میں ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ نے ’’مسند‘‘ میں روایت کیا ہے: ((اِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ کَرِیْمٌ یَسْتَحْیِیْ من عبدہ اذارفع الیہ یدیہ أ ن یردھما صفرا))( مسند احمد: ۵/ ۴۳۸ وجامع الترمذی، الدعوات، باب ان اللّٰه حی کریم، ح: ۳۵۵۶، وسنن ابن ماجہ، الدعاء، باب رفع الیدین فی الدعاء، ح: ۳۸۶۵۔) ’’بے شک اللہ تعالیٰ صاحب حیا اور کرم فرمانے والا ہے، وہ اس بات سے عار محسوس کرتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ہاتھوں کو اس کی طرف اٹھائے تو وہ انہیں خالی او ر نامراد واپس لوٹا دے۔‘‘ ۲۔ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے اسم پاک ’’رب‘‘ کے ساتھ یا رب! یا رب! کہہ کر دعا کی تھی اور اس اسم پاک کے وسیلے کے ساتھ دعا کرنا بھی اسباب قبولیت میں سے ایک سبب ہے، کیونکہ رب کے معنی خالق، مالک پروردگار اور تمام امور کی تدبیر کرنے والے کے ہیں، اس کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں وارد اکثر دعائیں اللہ تعالیٰ کے اسی اسم پاک سے شروع ہوتی ہیں: ﴿رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ، رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَاعَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ، فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ﴾(آل عمران: ۱۹۳۔۱۹۵) ’’اے ہمارے پروردگار! ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا جو ایمان کے لیے پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ، تو ہم ایمان لے آئے، اے ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیوں کو ہم سے محو کردے اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا۔ اے ہمارے پروردگار! تو نے جن جن چیزوں کے ہم سے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے وعدے کیے ہیں وہ ہمیں عطا فرما اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کرنا، اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں کہ تو خلاف وعدہ نہیں کرتا، تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو، خواہ مرد ہو یا عورت، ضائع نہیں کرتا۔ تم آپس میں ایک دوسرے کی جنس ہو۔‘‘ تو پتہ یہ چلا کہ اس اسم پاک کے ساتھ وسیلہ اختیار کرنے کا بھی اسباب قبولیت میں شمار ہے۔ ۳۔ یہ شخص مسافر تھا اور سفر کو بھی اکثر وبیشتر حالتوں میں اسباب قبولیت میں ہی شمارکیا جاتا ہے کیونکہ سفر میں انسان اپنے اہل خانہ میں مقیم ہونے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ ضرورت وحاجت محسوس کرتا ہے اور پھر وہ پریشان بال اور غبار آلود بھی ہو، گویا اپنی ذات کی طرف اس کی توجہ نہیں کیونکہ اس موقعہ سے اس کے نزدیک زیادہ اہم بات یہ ہواکرتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے فریاد کرے چاہے وہ جس حال میں بھی ہو، اللہ تعالیٰ ہی سے دعا کرے، خواہ اس کے بال پریشان اور اس کا لباس غبار آلود ہو یا وہ آسودہ حال ہو۔ پریشان حالی وغبار آلودگی کا بھی دعا کی قبولیت میں عمل دخل ہے، جیسا کہ نبی کی اس حدیث میں ہے:
Flag Counter