Maktaba Wahhabi

70 - 442
اساتذہ اس بات کو واجب قرار دیتے ہیں کہ اسماء وصفات سے متعلق نصوص کو ان کے ظاہر پر رکھنا اور تمثیل یا تکییف وغیرہ کی نفی کرنا واجب ہے۔ جب کہ دوسرے مدرسۂ فکر کے اساتذہ اسماء وصفات باری تعالیٰ کی ظاہر کے خلاف تاویل کو واجب قرار دیتے ہیں۔ یہ دونوں مدرسۂ فکر مکمل طور پر ایک دوسرے سے جدا ہیں اور ان دونوں کا اختلاف درج ذیل مثال سے اچھی طرح واضح ہو جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآئُ﴾ (المائدۃ: ۶۴) ’’بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں، وہ جس طرح (اور جتنا) چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔‘‘ ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے جب انکار کر دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اسے سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: ﴿قَالَ یَااِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ﴾ (صٓ:۷۵) ’’اللہ نے فرمایا: اے ابلیس! جس شخص کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا اس کے آگے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا؟‘‘ ان دونوں مدرسۂ فکر کے اساتذہ کا اس بات میں اختلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان دو ہاتھوں سے کیا مراد ہے، جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کے حوالے سے اثبات فرمایا ہے؟ پہلے مدرسۂ فکر کا کہنا ہے کہ واجب ہے کہ ان دونوں کے معنی کو ظاہر پر رکھا جائے اور اللہ تعالیٰ کے لیے دو حقیقی ہاتھوں کا اس طرح اثبات کیا جائے جس طرح اس کی ذات پاک کے شایان شان ہے۔ دوسرے مکتب فکر کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ظاہر کے خلاف ان کی تاویل کرنا واجب ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے دو حقیقی ہاتھوں کا اثبات حرام ہے، پھر اس بات میں بھی ان میں آپس میں اختلاف ہے کہ تاویل کی صورت میں ہاتھوں سے مراد قوت ہے یا نعمت؟ اس مثال سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان دونوں مکاتب فکر میں بہت زیادہ اختلاف ہے، جس کی وجہ سے یہ دونوں مکتبۂ فکر کے لوگ اہل سنت کی ایک صف میں اکٹھے نہیں ہو سکتے ، لہٰذا ضروری ہے کہ ان میں سے صرف ایک مدرسۂ فکر کو اہل سنت قرار دیا جائے۔ ہم دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کریں گے اور دونوں کو انصاف کے ترازو میں تولیں گے اور وہ انصاف کا ترازو کتاب اللہ، سنت رسول، کلام صحابہ کرام اور نیکوکاری کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے تابعین ہیں جو اس امت کے سلف اور ائمہ کرام ہیں۔ اس میزان کے مطابق دلائل کی تمام صورتوں کے مابین، مطابقت یا تضمن یا التزام، میں سے صریحاً یا اشارتاً کوئی ایک بھی ایسی دلیل کا وجود نہیں ملتا جس سے دوسرے مکتب فکر کے موقف کی تائید ہوتی ہو۔ اس میزان کی ہر دلیل صریحاً، ظاہراً یا اشارتاً اس بات کی تائید کرتی ہے کہ پہلے مکتب فکر کا مذہب ہی درست ہے، لہٰذا اہل سنت کا وصف صرف انہی کے لیے مخصوص ہے، دوسرا مکتب فکر اس وصف میں اس کے ساتھ شریک نہیں ۔ اس مکتب فکر کو اس وصف میں پہلے مکتب فکر کے ساتھ شامل کر دینا ظلم اور دو متضاد چیزوں کو یکجا کر دینے کے مترادف ہوگا، جب کہ ظلم شرعی طور پر اور دو متضاد چیزوں کو یکجا کر دینا عقلی طور پر ممنوع ہے۔
Flag Counter