Maktaba Wahhabi

219 - 545
نہیں رہا، اسی طرح ان نوٹوں نے پوری طرح سونے اور چاندی کی جگہ لے لی ہے، یعنی اب یہ نوٹ سونے چاندی کی دستاویز کے طور پر استعمال نہیں ہوتے بلکہ فرضی قوت خرید کی نمائندگی کر رہے ہیں اور حکومت کی طرف سے ہر شخص مجبور ہے کہ ان کو عوض کے طور پر قبول کرے، لہٰذا یہ کرنسی نوٹ قانوناً ہی متصورہوتے ہیں۔ اب یہ نوٹ حکومت وقت کی طرف سے اسٹیٹ بینک کی رسید کے طور پر مانے جاتے ہیں اور رسید تو پھر رسید ہوتی ہے چاہے وہ نئی ہو یا پرانی چونکہ اُس کی حیثیت اور اہمیت میں نئے اور پرانے سے کچھ فرق نہیں پڑتا اور اسٹیٹ بینک بھی نئے اور پرانے نوٹوں کی دیلیو کو یکساں تصور کرتی ہے بعض لوگ شادی اور عیدین کے موقع پر اپنے بچوں کو عیدی وغیرہ دینے کے لیے نئے نوٹ خریدتے ہیں اور جو لوگ نئےنوٹوں کی خریدو فروخت کاکام کرتے ہیں وہ اپنے نئے نوٹوں پر نفع رکھ کر بیچتے ہیں۔ مثلاً ہزار روپے کے دس والے نئے نوٹوں کو گیارہ سو روپے میں فروخت کرتے ہیں شرعاً یہ ناجائز ہے کیونکہ قانونی طور پر نئے اور پرانے نوٹوں کی قیمت برابر ہے ہاں اگر ملکی کرنسی کا تبادلہ غیر ملکی کرنسی سے ہو ،جیسے ڈالر،پونڈ،ین، درھم اور ریال وغیرہ تو قیمت کا فرق پورا کرنا جائز ہے مثلاً اگر ریال 22روپے کا ہےتو آپ اُس سے ایک ریال دے کر 22/روپے پاکستانی وصول کر سکتے ہیں یا ایک امریکی ڈالر دے کر 80روپے پاکستانی لے سکتے ہیں علی ھذا القیاس اُن کرنسیوں کی ویلیو کے فرق کو آپ پورا کریں یہ درست ہے لیکن اگر ایک ہی ملک کی کرنسیوں کا آپس میں تبادلہ کیا جائے تو چونکہ جنس ایک ہی ہے اس لیے ایک جانب سے مجلس عقد کے اندر قبضہ ضروری ہے تاکہ افتراق دَین بَدین لازم نہ آئے اور اس میں کمی زیادتی بھی جائز نہیں، اگر کمی بیشی کریں گے تو سُود لازم آئے گاجو کہ حرام ہے۔
Flag Counter