Maktaba Wahhabi

385 - 545
بازار میں جاکر بیچویا بازار والی قیمت پر بیچوتاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی غایت یہی تھی ورنہ تو مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے، جو تدبیر محترم عثمانی صاحب نے بتائی ہے کہ دونوں آپس میں اپنی اپنی چیز کی قیمت ایک مقرر کر لیں لیکن وزن کا فرق برقرار رہے یعنی عمدہ کھجور والا بھی ایک کلو 100روپے میں فریق اول کو بیچ دے اور فریق اول اپنی ناقص کھجوروں کے دو کلو بھی 100روپے میں بیچ دے تاکہ وزن کے فرق کی وجہ سے قیمت کا فرق کسی کو بھی ادا نہ کرنا پڑے اس میں قباحت یہ ہے کہ دونوں کا مقصد کھجوروں کا تبادلہ ہے نہ کہ رقم کا حصول اور کھجوروں کے اس تبادلے کے مابین رقم کو بطور حیلے سے گزار اجا رہا ہے جو کہ حرام ہے اوربیع عینہ کے مشابہ ہے، ہم نے اسے بیع عینہ سے مشابہ اس لیے قرار دیا کہ اُس میں فریقین کا مقصد رقم کا حصول ہوتا ہے نہ کہ بیع کی خریدو فروخت اُس میں ایک شخص فریق ثانی کو ایک چیز دس ہزار میں چھ ماہ کے اُدھار پر بیچ دیتا ہے پھر فوراً ہی وہی چیز اُس سے آٹھ ہزار روپے نقد میں خرید لیتا ہے نتیجے میں چیز بھی واپس آگئی اور دو ہزار روپے سود کے بھی لے آئی جسے شارع علیہ السلام نے حرام قراردیا ہے۔محترم عثمانی صاحب والی مثال میں فرق صرف یہ ہے وہاں کھجوروں کے تبادلے کے مابین رقم گزاری گئی اور یہاں رقم کے تبادلے کے مابین مال گزارا گیا وہاں کھجوروں کے وزن کا فرق حلال کرنا مقصود تھا اور یہاں رقم کی قیمت کا فرق مبلغ دو ہزار روپے حلال کرنا مقصود ہے لہٰذا حرام کو حلال کرنے کے حیلے بھی حرام ہیں۔ اس کے لیے اتنی بات کافی تھی کہ ہم اپنی چیزکی قیمت متعین کرنے کا حق رکھتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں کسی حیلے بھی حرام ہیں۔ اس کے لیے اتنی بات کافی تھی کہ ہم اپنی چیز کی قیمت متعین کرنے کا حق رکھتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں کسی حیلے کی ضرورت نہیں ہے اور ہماری مقررہ کردہ قیمت اگر کسی دوسرے شخص کی کسی ناجائز چیز کی قیمت کے برابر بیٹھتی ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اِعتراض نمبر4: اسلامی بینکوں کا طریقہ بھی سُودی بینکوں جیسا ہے یعنی ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
Flag Counter