Maktaba Wahhabi

252 - 545
سن کر سودی کاروبار کرنے والوں نے یہ اعتراض کیا کہ تم ایک چیز 10روپے کی خرید کر 12 روپے میں فروخت کرتے ہو تو اُسے حلال کہتے ہو اور ہم اگر کسی کو 10روپے دے کر 12 روپے لیں تو اُسے سود کہہ کر حرام کہتے ہونتیجہ تو دونوں کا ایک ہی ہے کہ پہلا شخص بھی 10روپے لگاکر 12 روپے لے کر 2 روپے کا نفع کمارہا ہے اور دوسراشخص بھی 10 روپے قرض میں صرف کرکے 12 روپے لے کر 2 روپے کا نفع کمارہا ہے تو شکل وصورت کےاعتبار اور منافع کے اعتبار سے دونوں ایک ہوئے پھر ایک کو حلال اور دوسرے کو حرام کہنا ٹھیک نہیں ہے،تب اللہ جل جلالہ نے کہاکہ ایک نے نفع کسی چیز پر حاصل کیا جس میں نفع ونقصان دونوں کااحتمال تھا اور دوسرے نے نفع رقم پر حاصل کیا جس میں ہرصورت نفع ہی نفع ہے اور نقصان کاکوئی عنصر موجود نہیں ہے۔ پہلا عمل بیع ہے جسے اللہ جل جلالہ نے حلال قراردیاہے اور دوسرا عمل ربا(سود) ہے جسے اللہ نے حرام قراردیا ہے اسی کی مثل علامہ شبیر احمد عثمانی بھی اپنے حاشیہ میں لکھا ہے جو مذکورہ آیت کے تحت فرماتے ہیں: ”یہ حالت اس واسطے ہوگی کہ انہوں نے حلال وحرام کو یکساں کردیا اور صرف اس وجہ سے کہ دونوں میں نفع مقصود ہوتاہے دونوں کو حلال کہا حالانکہ بیع اور ربا میں بڑافرق ہے کہ بیع کو اللہ جل جلالہ نے حلال کیا ہے اور سُود کو حرام، فائدہ:بیع میں جو نفع ہوتا ہے وہ مال کے مقابلہ میں ہوتا ہے جیسا کسی نے ایک درہم کی قیمت کا کپڑا دودرہم کا فروخت کیا اور سود وہ ہوتا ہے جس میں نفع بلاعوض ہو جیسے ایک درہم سے دودرہم خرید لیوے اول صورت میں چونکہ کپڑا اور درہم دوجدی جدی(جدا) قسم کی چیزیں ہیں اور نفع اورغرض ہر ایک کی دوسرے سے علیحدہ ہے اس لیے ان میں فی نفسہ موازنہ اور مساوات
Flag Counter