Maktaba Wahhabi

326 - 545
ہوجائے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سے یہ وضاحت بھی فرمادی کہ حلّت کے لیے صرف نکاح شرط نہیں ہے بلکہ صحبت بھی شرط ہے،لیکن یہ عمل کسی حیلہ سازی کے بغیر اپنی اصل بنیادوں پرہونا چاہیے ،یہ ہے وہ اصل مقصدیت کا حامل عمل جسے ہم بلاتردّداسلامی یا قرآنی حلالے کا نام دے سکتے ہیں لیکن فقہائے احناف نے اسی آیت کریمہ کی روشنی میں باقاعدہ ایک مروّجہ حلالے کا طریقہ کار وضع کیا جس میں بظاہر دیکھاجائے تو قرآن کے بیان کردہ حلالے اور فقہ حنفی کے وضع کردہ حلالے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔چونکہ دونوں صورتوں میں دوسرے شوہر سے نکاح ہوتا ہے،گواہوں کی موجودگی میں ہوتا ہے ،دونوں میں خلوتِ صحیحہ ہوتی ہے پھر طلاق ہوتی ہے،عدت گزاری جاتی ہے پھر پہلے خاوند سے فریقین کی رضا مندی اور گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح ہوتا ہے،دیکھاجائے تو اس پورے عمل(Procedure) میں قرآنی احکامات کی پیروی ہوتی نظر آتی ہے،لیکن اس کے باوجود رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ((لَعَنَ اللّٰهُ الْمُحَلِّلَ ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ))[1] ”حلالہ کرنے والے اور حلالہ کروانے والے(دونوں) پر خدا کی لعنت ہے۔“ کے الفاظ کہے ہیں ،آخر کیوں؟ کہیں تو فرق ہے اور وہ فرق بھی اتنا بڑا فرق ہے کہ ایسا عمل جو اپنی ظاہری شکل وصورت میں قرآنی آیت سے مآخوذ اور مستنبط نظر آتا ہے وہ لعنت کا باعث وموجب ہوجاتا ہے اور یہ فرق سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ قرآن کی بیان کردہ شکل وصورت ایک(Natural) اور حقیقی زندگی کا تقاضہ کررہی ہے کہ دوسرا نکاح بھی اسی چاہت اور جذبے سے ہو جس چاہت اور جذبے سے پہلانکاح ہوا تھا اور زندگی بھر
Flag Counter