Maktaba Wahhabi

328 - 545
کلائنٹ بینک کا وکیل بنے گا پہلے وہ چیز پسند کر کے بینک کے لیے خریدے گا پھر بینک سے کلائنٹ دوبارہ گاہک بن کر اپنے لیے خریدے گا اور بینک نے بھی اپنے لیے نہیں خریدا ہوتا بلکہ اُس کا مقصد بھی کلائنٹ کے لیے خریدنا ہوتا ہے صرف اس شکل کو ایک قانونی حیلے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ حقیقی شکل یہ ہوگی کہ بینک مختلف علاقوں اور سو سائٹیوں میں پہلے سے مکان خرید کر رکھیں یا پلاٹ خرید کر اُسے بنائیں جب یہ سب اُن کی ملک میں آجائیں تب کلائنٹ اُن کے پاس آئے تو اب اُسے وکیل بنانے کی ضرورت نہیں ڈائریکٹ اُسے خریدار بنائیں اور بینک بائع شمار ہوگا، اب بینک اپنا منافع رکھ کر اُسے فروخت کر سکتا ہے، اور اگر وکیل بنائے بغیر چارہ نہ ہو تو پھر جواز کی یہ شکل ہوگی کہ وکیل اس چیز کو بینک سے اپنے لیے خرید لینے کا پابند نہ ہو۔ اسی طرح کمپنی سے گاڑیاں پہلے سے بینک بک کروا کر اپنے قبضے میں لے پھر جس کلائنٹ کو گاڑی کی ضرورت ہو،اُسے وہ گاڑی اپنے منافع کے ساتھ بینک فروخت کرے یعنی بینک بھی خریداری میں اصل خریدار بنے صرف حرام کو حلال کرنے کے لیے قانونی حیلہ نہ ہو جس طرح زکوٰۃ کے لیے سرمائے پر اپنے قبضے اور ملکیت میں سال گزرنا شرط ہے۔ تو اس شرط سے بچنے کے لیے حیلہ سازی کر کے چھ ماہ کے لیے رقم بیوی کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردی جاتی ہے اور چھ ماہ بعد میاں کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرادی جاتی ہے تاکہ نہ میاں کے پاس سال گزرے اور نہ بیوی کے پاس سال گزرے، اس طرح سال تو گزر جائے گا لیکن زکوٰۃ کسی پر فرض نہیں ہوگی کیونکہ فریقین میں سے کسی کے پاس بھی سرمایہ سال بھر نہیں رہا، تو اس طرح کے حیلے شریعت کی اصل روح کے منافی ہوتے ہیں۔ 2۔تقریباً ہر معاہدے میں یہ شرط مشترک ہے کہ ادائیگی کی تاریخ میں اگر کچھ دنوں کی تاخیر ہو جائے تو اُس کے لیے ایک صدقاتی فنڈ میں صدقے کی رقم بطور جرمانہ
Flag Counter