Maktaba Wahhabi

378 - 545
حاضر کے نوجوان محقق جناب مولانا حافظ ذوالفقار علی صاحب حفظہ اللہ نے اپنی کتاب”دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم“میں”اسلامی بینکاری کی حقیقت“کے عنوان سے خوب مخالفت فرمائی۔ ابتلک مختلف اطراف اور مختلف زاویوں سے جن تنقیدات کا نشانہ بنایا گیا ہے وہ حسب ذیل ہے: 1۔اسٹیٹ بینک کے زیر اثر ہونا۔ 2۔ اسلامی بینکوں میں رائج اجارہ تمویل(فنانسنگ) ہے نہ کہ حقیقی اجارہ۔ 3۔نفع کے تعین کے لیے شرح سُود کو معیار بنانا۔ 4۔ اسلامی بینکوں کا طریقہ بھی سُودی بینکوں جیسا ہے۔ 5۔ اسلامی بینکوں کی طرح اسلامی بینک بھی نان رسک ہیں۔ 6۔نفع کی تقسیم کا جو تناسب فارم میں متعین ہوا ہے بینک اُس تناسب میں تبدیلی کا مجاز ہوتا ہے۔ 7۔بینک کلائنٹ کو ایسی چیز فروخت کر رہا ہوتا ہے جو اُس کے قبضے میں نہیں ہوتی۔ 8۔کلائنٹ بینک سے کہتا ہے کہ اگر تم یہ چیز خرید لو تو میں تم سے لے لوں گا یہ بیع معلق ہے جو صحیح نہیں۔ 9۔جس طرح اسلامی شراب نہیں ہو سکتی اسی طرح اسلامی بینک بھی نہیں ہو سکتا۔ 10۔سُودی بینکاری کا متبادل صرف اور صرف شرکت و مضاربت ہے۔ 11۔اسلامی بینک بھی اپنی کچھ رقم اسٹیٹ بینک میں سُود پر رکھواتے ہیں۔ 12۔اجارے کی آئندہ اُجرت میں کمی بیشی کی جاتی ہے جو مجہول ہوتی ہے اور بوجہ جہالت یہ اُجرت حرام ہے۔
Flag Counter